ٹیگ کے محفوظات: پانے

جان سے بھی ہم جاتے رہے ہیں تم بھی آئو جانے دو

دیوان سوم غزل 1219
قتل کیے پر غصہ کیا ہے لاش مری اٹھوانے دو
جان سے بھی ہم جاتے رہے ہیں تم بھی آئو جانے دو
جان سلامت لے کر جاوے کعبہ میں تو سلام کریں
ایک جراحت ان ہاتھوں کا صید حرم کو کھانے دو
اس کی گلی کی خاک سبھوں کے دامن دل کو کھینچے ہے
ایک اگر جی لے بھی گیا تو آتے ہیں مر جانے دو
کرتے ہو تم نیچی نظریں یہ بھی کوئی مروت ہے
برسوں سے پھرتے ہیں جدا ہم آنکھ سے آنکھ ملانے دو
کیا کیا اپنے لوہو پئیں گے دم میں مریں گے دم میں جئیں گے
دل جو بغل میں رہ نہیں سکتا اس کو کسو سے بکانے دو
اب کے بہت ہے شور بہاراں ہم کو مت زنجیر کرو
دل کی ہوس ٹک ہم بھی نکالیں دھومیں ہم کو مچانے دو
عرصہ کتنا سارے جہاں کا وحشت پر جو آجاویں
پائوں تو ہم پھیلاویں گے پر فرصت ہم کو پانے دو
کیا جاتا ہے اس میں ہمارا چپکے ہم تو بیٹھے ہیں
دل جو سمجھنا تھا سو سمجھا ناصح کو سمجھانے دو
ضعف بہت ہے میر تمھیں کچھ اس کی گلی میں مت جائو
صبر کرو کچھ اور بھی صاحب طاقت جی میں آنے دو
بات بنانا مشکل سا ہے شعر سبھی یاں کہتے ہیں
فکر بلند سے یاروں کو ایک ایسی غزل کہہ لانے دو
میر تقی میر

دل جو یہ ہے تو ہم آرام نہیں پانے کے

دیوان دوم غزل 989
کتنے روزوں سے نہ سونے کے ہیں نے کھانے کے
دل جو یہ ہے تو ہم آرام نہیں پانے کے
ہائے کس خوبی سے آوارہ رہا ہے مجنوں
ہم بھی دیوانے ہیں اس طور کے دیوانے کے
عزم ہے جزم کہ اب کے حرکت شہر سے کر
ہوجے دل کھول کے ساکن کسو ویرانے کے
آہ کیا سہل گذر جاتے ہیں جی سے عاشق
ڈھب کوئی سیکھ لے ان لوگوں سے مرجانے کے
جمع کرتے ہو جو گیسوے پریشاں کو مگر
ہو تردد میں کوئی تازہ بلا لانے کے
کاہے کو آنکھ چھپاتے ہو یہی ہے گر چال
ایک دو دن میں نہیں ہم بھی نظر آنے کے
ہاتھ چڑھ جائیو اے شیخ کسو کے نہ کبھو
لونڈے سب تیرے خریدار ہیں میخانے کے
خاک سے چرخ تلک اب تو رکا جاتا ہے
ڈول اچھے نہیں کچھ جان کے گھبرانے کے
لے بھی اے غیرت خورشید کہیں منھ پہ نقاب
مقتضی دن نہیں اب منھ کے یہ دکھلانے کے
لالہ و گل ہی کے مصروف رہو ہو شب و روز
تم مگر میر جی سید ہو گلستانے کے
میر تقی میر

بھر نہ آویں کیونکے آنکھیں میری پیمانے کی طرح

دیوان دوم غزل 794
دور گردوں سے ہوئی کچھ اور میخانے کی طرح
بھر نہ آویں کیونکے آنکھیں میری پیمانے کی طرح
آنکلتا ہے کبھو ہنستا تو ہے باغ و بہار
اس کی آمد میں ہے ساری فصل گل آنے کی طرح
چشمک انجم میں اتنی دلکشی آگے نہ تھی
سیکھ لی تاروں نے اس کی آنکھ جھمکانے کی طرح
ہم گرفتاروں سے وحشت ہی کرے ہے وہ غزال
کوئی تو بتلائو اس کے دام میں لانے کی طرح
ایک دن دیکھا جو ان نے بید کو تو کہہ اٹھا
اس شجر میں کتنی ہے اس میرے دیوانے کی طرح
آج کچھ شہر وفا کی کیا خرابی ہے نئی
عشق نے مدت سے یاں ڈالی ہے ویرانے کی طرح
پیچ سا کچھ ہے کہ زلف و خط سے ایسا ہے بنائو
ہے دل صد چاک میں بھی ورنہ سب شانے کی طرح
کس طرح جی سے گذر جاتے ہیں آنکھیں موند کر
دیدنی ہے دردمندوں کے بھی مر جانے کی طرح
ہے اگر ذوق وصال اس کا تو جی کھو بیٹھیے
ڈھونڈ کر اک کاڑھیئے اب اس کے بھی پانے کی طرح
یوں بھی سر چڑھتا ہے اے ناصح کوئی مجھ سے کہ ہائے
ایسے دیوانے کو سمجھاتے ہیں سمجھانے کی طرح
جان کا صرفہ نہیں ہے کچھ تجھے کڑھنے میں میر
غم کوئی کھاتا ہے میری جان غم کھانے کی طرح
میر تقی میر

ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا

دیوان اول غزل 94
فلک کا منھ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا
ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا
ہمارے ضعف کی حالت سے دل قوی رکھیو
کہیں خیال نہیں یاں بحال آنے کا
تری ہی راہ میں مارے گئے سبھی آخر
سفر تو ہم کو ہے درپیش جی سے جانے کا
بسان شمع جو مجلس سے ہم گئے تو گئے
سراغ کیجو نہ پھر تو نشان پانے کا
چمن میں دیکھ نہیں سکتی ٹک کہ چبھتا ہے
جگر میں برق کے کانٹا مجھ آشیانے کا
ٹک آ تو تا سر بالیں نہ کر تعلل کیا
تجھے بھی شوخ یہی وقت ہے بہانے کا
سراہا ان نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم
شہید ہوں میں تری تیغ کے لگانے کا
شریف مکہ رہا ہے تمام عمر اے شیخ
یہ میر اب جو گدا ہے شراب خانے کا
میر تقی میر

کر نہ تکلیف مسکرانے کی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 168
اب نہیں تاب زخم کھانے کی
کر نہ تکلیف مسکرانے کی
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
کون سنتا ہے اب زمانے کی
زندگی پھر نہ راہ پر آئی
دیر تھی اک فریب کھانے کی
سب کی نظروں میں ہم کھٹکنے لگے
یہ سزا ہے مراد پانے کی
تھا زمانہ بھی مہرباں باقیؔ
جب ضرورت نہ تھی زمانے کی
باقی صدیقی