ٹیگ کے محفوظات: پارسا

صنم پرست نہ ہو بندہ ریا واعظ

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 56
ترے فسوں کی نہیں میرے دل میں جا واعظ
صنم پرست نہ ہو بندہ ریا واعظ
کسی صنم نے مگر آپ کو جلایا ہے
نہیں تو حوروں کی کیوں اس قدر ثنا واعظ
تمہارے حسنِ جہاں سوز سے میں جلتا ہوں
کہ ہیں رقیب مرے شیخ و پارسا، واعظ
ملا کے دیکھیں کہ ہے خوب کون دونوں میں
ہم اس کو لاتے ہیں تو حور کو بلا واعظ
ترے فسونِ اثر ریز سے رسا تر ہے
فغانِ بے اثر و آہِ نارسا واعظ
کمی تھی حالتِ رندی میں اس کو کیا یارو
کوئی یہ پوچھے کہ کیوں شیفتہ ہوا واعظ
مصطفٰی خان شیفتہ

بے یار و بے دیار و بے آشنا ہوئے ہیں

دیوان ششم غزل 1848
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم وے جدا ہوئے ہیں
بے یار و بے دیار و بے آشنا ہوئے ہیں
غیرت سے نام اس کا آیا نہیں زباں پر
آگے خدا کے جب ہم محو دعا ہوئے ہیں
اہل چمن سے کیونکر اپنی ہو روشناسی
برسوں اسیر رہ کر اب ہم رہا ہوئے ہیں
بے عشق خوب رویاں اپنی نہیں گذرتی
اے وائے کس بلا میں ہم مبتلا ہوئے ہیں
جانا کہ تن میں ہر جا نازک ہے اور دلکش
ہم رفتۂ سراپا اس کے بجا ہوئے ہیں
تھے غنچے جتنے زیر دیوار باغ طائر
شب باشی چمن سے شاید خفا ہوئے ہیں
صرفہ قمیص کا ہے کیا وقر اس گلی میں
ترک لباس کر واں شاہاں گدا ہوئے ہیں
خاموش اس کے در پر ہوکر فقیر بیٹھے
یعنی کہ عاشقی میں ہم بے نوا ہوئے ہیں
عہد شباب گذرا شرب مدام ہی میں
ہم کہنہ سال ہوکر اب پارسا ہوئے ہیں
اظہار کم فراغی ہردم کی بے دماغی
ان روزوں میر صاحب کچھ میرزا ہوئے ہیں
میر تقی میر

خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے

دیوان پنجم غزل 1782
ترے بندے ہم ہیں خدا جانتا ہے
خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے
نہیں عشق کا درد لذت سے خالی
جسے ذوق ہے وہ مزہ جانتا ہے
ہمیشہ دل اپنا جو بے جا ہے اس بن
مرے قتل کو وہ بجا جانتا ہے
گہے زیر برقع گہے گیسوئوں میں
غرض خوب وہ منھ چھپا جانتا ہے
مجھے جانے ہے آپ سا ہی فریبی
دعا کو بھی میری دغا جانتا ہے
جفا اس پہ کرتا ہے حد سے زیادہ
جنھیں یار اہل وفا جانتا ہے
لگا لے ہے جھمکے دکھاکر اسی کو
جسے مغ بچہ پارسا جانتا ہے
اسے جب نہ تب ہم نے بگڑا ہی پایا
یہی اچھے منھ کو بنا جانتا ہے
بلا شور انگیز ہے چال اس کی
اسی طرز کو خوش نما جانتا ہے
نہ گرمی جلاتی تھی ایسی نہ سردی
مجھے یار جیسا جلا جانتا ہے
یہی ہے سزا چاہنے کی ہمارے
ہمیں کشتہ خوں کے سزا جانتا ہے
مرے دل میں رہتا ہے تو ہی تبھی تو
جو کچھ دل کا ہے مدعا جانتا ہے
پری اس کے سائے کو بھی لگ سکے نہ
وہ اس جنس کو کیا بلا جانتا ہے
جہاں میر عاشق ہوا خوار ہی تھا
یہ سودائی کب دل لگا جانتا ہے
میر تقی میر