ٹیگ کے محفوظات: پات

شاعری ماجد! عبارت ہو اگر صدمات سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
کم نہیں وجدان پر اُتری ہوئی آیات سے
شاعری ماجد! عبارت ہو اگر صدمات سے
ہر تمنّا ہے اِسی کی دھند میں لپٹی ہوئی
مدّتوں سے ہے یہی رشتہ اندھیری رات سے
کر لئے بے ذائقہ وہ دن بھی جو آئے نہیں
درس کیا لیتے بھلا ہم اور جھڑتے پات سے
بن گئیں پیڑوں کی شاخیں بھی قفس کی تیلیاں
سامنا ہے باغ میں ایسے ہی کچھ حالات سے
ابنِ آدم اب کے پھر فرعون ٹھہرا ہے جسے
مل گیا زعمِ خدائی آہنی آلات سے
ماجد صدیقی

سامنا اِک عمر سے ہے اُس اندھیری رات سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
جس کا ہر منظر مرتّب ہے نئی آفات سے
سامنا اِک عمر سے ہے اُس اندھیری رات سے
مطمئن کیا ہو بھلا بچّوں کی نادانی سے وہ
ماں جسے فرصت نہیں اک آن بھی خدشات سے
کر لئے بے ذائقہ وہ دن بھی جو آئے نہیں
درس کیا لیتے بھلا ہم اور جھڑتے پات سے
ابنِ آدم اب کے پھر فرعون ٹھہرا ہے جسے
مل گیا زعمِ خدائی آہنی آلات سے
جس کے ہم داعی ہیں ماجد ضَو نہیں، ظلمت ہے وہ
پھوٹتی ہے جو ہمارے جسم کے ذرّات سے
ماجد صدیقی

آندھیاں اُٹھا لائیں، پات میرے آنگن میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
ہو چلی ہے اَن دیکھی بات، میرے آنگن میں
آندھیاں اُٹھا لائیں، پات میرے آنگن میں
اوٹ سے منڈیروں کی، ڈور چھوڑ کر مجھ کو
دے گیا ہے پھر کوئی مات، میرے آنگن میں
نام پر مرے کس نے، کاٹ کاٹ کر چِّلے
دفن کی ہے آسیبی دھات، میرے آنگن میں
بس اِسی بنا پر مَیں، آسماں سے رُوٹھا ہوں
چاند کیوں نہیں اُترا رات، میرے آنگن میں
جب سے کُھل چلی ماجدؔ، بے بضاعتی دل کی
کرب نے لگائی ہے گھات، میرے آنگن میں
ماجد صدیقی

فوّاروں سی پھُوٹ رہی ہے، آنگن آنگن رات

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
کیا کر لے گی اِن اشکوں، اِن تاروں کی بارات
فوّاروں سی پھُوٹ رہی ہے، آنگن آنگن رات
اپنی خشک تنی کے نوحے، کر کے لبوں سے محو
پانی ہی کے گُن گاتے ہیں، پیڑ سے جھڑتے پات
ہم ایسے پچھڑے لوگوں کے، دل کا حال نہ پوچھ
جنگلی گھاس کی صورت چمٹیں، قدم قدم صدمات
جیون ہے سائے کی مسافت، پل میں اور سے اور
شکلیں بدلے اور تیاگے اپنوں تک کا سات
کس نے چُلوّ پانی سے مُجھ پیڑ کی چاہی خیر
کس نے قبر پہ حاتم کی ماری ہے، ماجدؔ لات
ماجد صدیقی

تیرا میرا سات

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
پورا چاند اور رات
تیرا میرا سات
خوشبُو تک میں بھی
کیا کچھ ہیں درجات
کون کرے تسلیم
سچے حرف کی ذات
اِک ناد ر تصویر
پیڑ سے جھڑتے پات
کاشانوں کے پاس
سانپ لگائیں گھات
نشتر جیسی تیز
ماجد ؔ تیری بات
ماجد صدیقی

اَب نام ہمارے کوئی سوغات نہ آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
خوشبُو بھی صبا اُس کی لئے سات نہ آئے
اَب نام ہمارے کوئی سوغات نہ آئے
جو لہر بھی اُٹھتی ہو بھلے دل میں اُٹھے وُہ
ہونٹوں پہ مگر تُندیٔ جذبات نہ آئے
اک بار جھنجھوڑا ہو جِسے ابر و ہوا نے
اُس پیڑ پہ پھر لوٹ کے پھل پات نہ آئے
دیکھی تھی نشیمن کے اُجڑنے سے جو پہلے
ایسی بھی گلستاں میں کوئی رات نہ آئے
جو یاد بھی آئے، تو لرزتا ہے بدن تک
آنکھوں میں کہیں پھر وُہی برسات نہ آئے
ہر کوہ یہ کہتا ہے کہ آگے کبھی اُس کے
تیشے میں ہے جو لطفِ کرامات نہ آئے
کرنے کو شفاعت بھی یہ اچّھا ہے کہ ماجدؔ
نیّت ہے بُری جس کی وُہ بد ذات نہ آئے
ماجد صدیقی

اُس کو پاگل ہی کہو رات کو جو رات کہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
خلقتِ شہر سے کیوں ایسی بُری بات کہے
اُس کو پاگل ہی کہو رات کو جو رات کہے
جاننا چاہو جو گلشن کی حقیقت تو سُنو
بات وُہ شاخ سے نُچ کر جو جھڑا پات کہے
اِس سے بڑھ کر بھی ہو کیا غیر کی بالادستی
جیت جانے کو بھی جب اپنی نظرمات کہے
کون روکے گا بھلا وقتِ مقرّر پہ اُسے
بات ہر صبح یہی جاتی ہوئی رات کہے
بس میں انساں کے کہاں آئے ترفّع اس سا
وقت ہر آن جو اپنی سی مناجات کہے
منحرف حرف سے کاغذ بھی لگے جب ماجدؔ
کس سے جا کر یہ قلم شّدتِ صدمات کہے
ماجد صدیقی

کیا جبر جتانے یہ سیہ رات رُکی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
تھی غنچۂ دل میں جو وُہی بات رُکی ہے
کیا جبر جتانے یہ سیہ رات رُکی ہے
کب ریت کی دیوار سے سیلاب ہے ٹھٹکا
فریاد سے کب یورشِ آفات رُکی ہے
ژالہ سا ہر اِک برگ لپکتا ہے زمیں کو
کیسی یہ بھلا باغ میں برسات رُکی ہے
کچھ اور بھی مچلے گی ابھی بُعدِ سحر سے
پلکوں پہ ستاروں کی جو بارات رُکی ہے
عجلت میں رواں، مالِ غنیمت کو سنبھالے
کب موجِ ہوا پاس لئے پات، رُکی ہے
بوندوں نے قفس میں بھی یہی دی ہے تسلی
صیّاد سے کب بارشِ نغمات رُکی ہے
ماجدؔ یہ کرم ہم پہ کہاں موسمِ گل کا
کب ہاتھ میں لینے کو صبا ہات رُکی ہے
ماجد صدیقی

اَب تو چاروں اور ہمیں وہ رات دکھائی دیتی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
پل پل بُجھتی جس میں اپنی ذات دکھائی دیتی ہے
اَب تو چاروں اور ہمیں وہ رات دکھائی دیتی ہے
صحن چمن میں پہلا ہی سا رقص و سرُود ہوا کا ہے
ہر سُو گرتے پتّوں کی برسات دکھائی دیتی ہے
جانے کس کا خوف ہے جو کر دیتا ہے محتاط ہمیں
ہونٹوں پر اٹکی اٹکی ہر بات دکھائی دیتی ہے
شاخِ طرب سے جھڑنے والی، گردِ الم میں لپٹی سی
صُورت صُورت پیڑ سے بچھڑا پات دکھائی دیتی ہے
سودا ہے درپیش ہمیں جو آن کا ہے یا جان کا ہے
صُورت جینے مرنے کی اک سات دکھائی دیتی ہے
موسمِ دشت میں نم ہو ماجدؔ کب تک آبلہ پائی سے
اَب تو ہمیں اِس رن میں بھی کُچھ مات دکھائی دیتی ہے
ماجد صدیقی

بڑا دشوار ہے حق بات کہنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 98
چمن کی تیرگی کو رات کہنا
بڑا دشوار ہے حق بات کہنا
جو دھبے گرد کے اشجار پر ہیں
انہیں دھبے نہ کہنا پات کہنا
جو انساں کل فرشتہ تھا نظر میں
اُسے بھی پڑ گیا بد ذات کہنا
شریکِ راحت یاراں نہ ہونا
بجائے آفریں ہیہات کہنا
زباں پر حرفِ حق آئے اگر تو
اُسے تم تنُدیٔ جذبات کہنا
نہ خفت ماننا کوئی تم اپنی
ہماری جیت ہی کو مات کہنا
یہ دنیا ہے یہاں رہنے کو ماجدؔ
پڑے سچ جھوٹ سب اِک سات کہنا
ماجد صدیقی

لاتے ہیں ایک قبر کی چادر بھی سات ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 144
بازار سے ہر عید سے پہلے کی رات ہم
لاتے ہیں ایک قبر کی چادر بھی سات ہم
تاریخ نے دئیے ہیں ہمیں نام کیا سے کیا
کرنے گئے جو زیرِ نگیں سومنات ہم
تیور ہی اہلِعدل کے کچھ اس طرح کے تھے
پلٹے ہیں حلق ہی میں لیے اپنی بات ہم
لینے دیا جو تنُدیٔ موسم نے دم کبھی
نکلیں گے ڈھونڈنے کو کہیں پھول پات ہم
اپنے سفر کی سمت ہی الٹی ہے جب توکیوں
کرتے پھریں تلاش نہ راہِ نجات ہم
دربار میں نزاکت احساس کب روا
ماجدؔ کسے سُجھائیں نظر کے نکات ہم
ماجد صدیقی

آج پھر چاند کی چودہویں رات ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
تُجھ سے کہنے کی بس اَب یہی بات ہے
آج پھر چاند کی چودہویں رات ہے
اپنی خواہش، کہ گُل پیرہن ہو چلیں
اور فضائے چمن، وقفِ حالات ہے
چار سُو ایک ہی منظرِ بے سکوں
چار سُو خشک پتّوں کی برسات ہے
اَب تو ماجدؔ خزاں کے نہ منکر رہو
شاخ پر اَب تو کوئی کوئی پات ہے
ماجد صدیقی

پھر بھی میں ہوں جلتی بجھتی روشنی کے ساتھ ساتھ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 405
چل رہی ہے زندگی کی اک بھیانک رات ساتھ
پھر بھی میں ہوں جلتی بجھتی روشنی کے ساتھ ساتھ
میں نے سوچا کیا کہیں گے میرے بچپن کے رفیق
اور پھر رختِ سفر میں رکھ لیے حالات ساتھ
میں اکیلا رونے والا تو نہیں ہوں دھوپ میں
دے رہی ہے کتنے برسوں سے مرا برسات ساتھ
چاہیے تھا صرف تعویذِ فروغِ کُن مجھے
دے دیا درویش نے اذنِ شعورِ ذات ساتھ
یہ خزاں زادے کہیں کیا گل رتوں کے مرثیے
یونہی بے مقصد ہواؤں کے ہیں سوکھے پات ساتھ
ایک بچھڑے یار کی پرسوز یادوں میں مگن
کوئی بگلا چل رہا تھا پانیوں کے ساتھ ساتھ
منصور آفاق

میرے ساتھ چلی جاؤ تم یا سورج کے ساتھ۔ ایک ہی بات

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 139
اُس کی منزل تاریکی ہے،میری منزل رات۔ ایک ہی بات
میرے ساتھ چلی جاؤ تم یا سورج کے ساتھ۔ ایک ہی بات
موسم اور میں ایک ہی دریا کے دو پاگل فرد۔درد نورد
برکھا رت کے آنسو ہوں یاآنکھوں کی برسات۔ ایک ہی بات
تیز ہوا کی زد پر دونوں ،ایک ہی پل کا روپ۔موت کی دھوپ
جیون سے آویختہ میں یا پیڑ سے مردہ پات۔ ایک ہی بات
اس کے کنجِ لب میں میری مسکانوں کی دھول۔ ہجرکے پھول
یعنی جیت کسی کی اور مسلسل میری مات۔ ایک ہی بات
میں گمنام یہاں تو اس کا جانے کون مقام۔کون غلام
ملک سخن کامیں شہزادہ اور ہے وہ سادات۔ ایک ہی بات
تیز کراہیں ، آہیں ، چیخیں ،گرمی اور سیلاب۔سانس عذاب
پاکستان کے منظر ہو ں یادوزخ کے حالات۔ ایک ہی بات
رنگ گریں گے قوسِ قزح سے،پھولوں سے سنگیت۔میت کے گیت
صبحِ بدن پر میرا ہو یا بادصبا کا ہاتھ۔ ایک ہی بات
کیسے کہوں میں باہو ، بلھا ، وارث ، شاہ حسین۔پیر فرید
کیسے کہوں منصور کے یا اقبال کے فرمودات۔ ایک ہی بات
منصور آفاق

پانیوں کے جسم پر تھا یخ ہوا کا نرم ہات

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 4
سندھ کے دریا میں گم تھی سانولی مہتاب رات
پانیوں کے جسم پر تھا یخ ہوا کا نرم ہات
یہ خزاں زادے کہیں کیا گل رتوں کے مرثیے
یونہی بے مقصدکریں پرواز سارے خشک پات
کالے کاجل بادلو! روکو نہ اس کا راستہ
ایک دولہا آرہاہے لے لے تاروں کی برات
چاندنی! کیا روگ تھا اس موتیے کے پھول کو
رات بھر وہ جاگتا تھا سوچتا تھا کوئی بات
کوبرے کے روپ میں منصور بل کھاتی ہوئی
ساحلوں کو کاٹتی پھرتی ہے ندیا گھات گھات
منصور آفاق

میں خدا اور کائنات

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 3
چل رہے ہیں ایک ساتھ
میں خدا اور کائنات
عرش پر بس بیٹھ کر
کن فکاں کا چرخہ کات
مرد و زن کا اجتماع
بیچ صدیوں کی قنات
دو وجودوں میں جلی
سردیوں کی ایک رات
بند ذرے میں کوئی
کائناتی واردات
آسیا میں قطب کی
سو گئیں سولہ جہات
پانیوں پر قرض ہے
فدیۂ نہر فرات
تُو پگھلتی تارکول
میں سڑک کا خشک پات
تیرا چہرہ جاوداں
تیری زلفوں کو ثبات
رحمتِ کن کا فروغ
جشن ہائے شب برات
شب تھی خالی چاند سے
دل رہا اندیشوں وات
نت نئے مفہوم دے
تیری آنکھوں کی لغات
آنکھ سے لکھا گیا
قصۂ نا ممکنات
گر پڑی ہے آنکھ سے
اک قیامت خیز بات
تیرے میرے درد کا
ایک شجرہ، ایک ذات
کٹ گئے ہیں روڈ پر
دو ہوا بازوں کے ہاتھ
لکھ دی اک دیوار پر
دل کی تاریخِ وفات
موت تک محدود ہیں
ڈائری کے واقعات
منصور آفاق