منصور آفاق ۔ غزل نمبر 139
اُس کی منزل تاریکی ہے،میری منزل رات۔ ایک ہی بات
میرے ساتھ چلی جاؤ تم یا سورج کے ساتھ۔ ایک ہی بات
موسم اور میں ایک ہی دریا کے دو پاگل فرد۔درد نورد
برکھا رت کے آنسو ہوں یاآنکھوں کی برسات۔ ایک ہی بات
تیز ہوا کی زد پر دونوں ،ایک ہی پل کا روپ۔موت کی دھوپ
جیون سے آویختہ میں یا پیڑ سے مردہ پات۔ ایک ہی بات
اس کے کنجِ لب میں میری مسکانوں کی دھول۔ ہجرکے پھول
یعنی جیت کسی کی اور مسلسل میری مات۔ ایک ہی بات
میں گمنام یہاں تو اس کا جانے کون مقام۔کون غلام
ملک سخن کامیں شہزادہ اور ہے وہ سادات۔ ایک ہی بات
تیز کراہیں ، آہیں ، چیخیں ،گرمی اور سیلاب۔سانس عذاب
پاکستان کے منظر ہو ں یادوزخ کے حالات۔ ایک ہی بات
رنگ گریں گے قوسِ قزح سے،پھولوں سے سنگیت۔میت کے گیت
صبحِ بدن پر میرا ہو یا بادصبا کا ہاتھ۔ ایک ہی بات
کیسے کہوں میں باہو ، بلھا ، وارث ، شاہ حسین۔پیر فرید
کیسے کہوں منصور کے یا اقبال کے فرمودات۔ ایک ہی بات
منصور آفاق
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔