اب اس پہ ایک نظر ناقدانہ چاہتا ہوں
میں اپنا خواب کسی کو دکھانا چاہتا ہوں
تُو اپنی آگ مری لَو سے متصل کردے
میں ایک شب کے لیے جگمگانا چاہتا ہوں
یہ بات تجھ کو بتانے لگا ہوں آخری بار
میں چاہتا ہوں تجھے، والہانہ چاہتا ہوں
میں اپنے آپ کو بالکل نہیں پسند آیا
سو خود کو توڑ کے پھر سے بنانا چاہتا ہوں
ترے گریز کی عادت نہیں پڑی ہے ابھی
کبھی کبھار ترے پاس آنا چاہتا ہوں
میں خود سے دُور، ہہت دُور جا بسوں گا کہیں
یہ طے تو کرہی چکا ہوں، بہانہ چاہتا ہوں
میں بجھ رہا ہوں جلا لو کوئی دیا مجھ سے
میں اپنی روشنی آگے بڑھانا چاہتا ہوں
برونِ ذات کسی سے نہیں ہے خوف مجھے
میں اپنے آپ کو خود سے بچانا چاہتا ہوں
کہیں ہے کیا کوئی جائے پناہ_ دل زدگاں
میں اب سکون سے آنسو بہانا چاہتا ہوں
قرار پائے گا جب روح_عصر میرا سخن
میں اپنے ہوتے ہوئے وہ زمانہ چاہتا ہوں
بدن کا حق تو ادا کرچکا بہت عرفان
بس اب تو روح کا کوئی ٹھکانہ چاہتا ہوں
عرفان ستار