ٹیگ کے محفوظات: ٹلتا

لمحوں کو اوڑھے پہلو بدلتا ہوا سکُوت

تنہائیوں کی رات میں پلتا ہوا سُکُوت
لمحوں کو اوڑھے پہلو بدلتا ہوا سکُوت
دن بَھر کی شورشوں کی دُرشتی کو توڑ کر
غازہ گگن کے گال پہ ملتا ہوا سکوت
پھر چُپ خزاں کی رات میں پتوں کے شور سے
کانوں کے پاس آن کے ٹلتا ہوا سکوت
ان برف باریوں میں ہواؤں کی سائیں سائیں
دِل کے فلک پہ جمتا پگھلتا ہوا سکُوت
طوفاں کے بعد اُجڑتی نکھرتی سیاہ رات
لمحہ بہ لمحہ گرتا سنبھلتا ہوا سکُوت
ویراں کھنڈر میں روح سی ماتم کُناں کوئی
دِل کے اُجاڑ گھر میں ٹہلتا ہوا سکُوت
شعر و سُخن کا شور بھی یاوؔر ہوا عذاب
لاؤ صدا کے پھول مسلتا ہوا سکُوت
یاور ماجد

اشک کی سرخی زردی چہرہ کیا کیا رنگ بدلتا ہے

دیوان چہارم غزل 1519
عشق کیا ہے جب سے ہم نے دل کو کوئی ملتا ہے
اشک کی سرخی زردی چہرہ کیا کیا رنگ بدلتا ہے
روز وداع لگا چھاتی سے وہ جو خوش پرکار گیا
دل تڑپے ہے جان کھپے ہے سینہ سارا جلتا ہے
گور بغیر آرام گہ اس کو دنیا میں پھر کوئی نہیں
عشق کا مارا آوارہ جو گھر سے اپنے نکلتا ہے
ضعف دماغی جس کو ہووے عشق کے رنج و محنت سے
جی بھی سنبھلتا ہے اس کا پر بعد از دیر سنبھلتا ہے
شورجرس شب گیر کا غافل تیاری کا تنبہ ہے
یعنی آنکھ نہ لگنے پاوے قافلہ صبح کو چلتا ہے
بال نہیں عاشق کے بدن پر ہربن مو سے نکلا دود
بل کر اس کو جلاتے کیا ہو آپھی جلتا بلتا ہے
میرستم کشتہ کی سماجت ہے مشہور زمانے کی
جان دیے بن آگے سے اس کے کب وہ ظالم ٹلتا ہے
میر تقی میر

واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 108
یہ جو ٹھہرا ہوا منظر ہے، بدلتا ہی نہیں
واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں
آگ سے تیز کوئی چیز کہاں سے لاؤں
موم سے نرم ہے وہ اور پگھلتا ہی نہیں
یہ مری خمس حواسی کی تماشا گاہیں
تنگ ہیں ، ان میں مرا شوق بہلتا ہی نہیں
پیکرِ خاک ہیں اور خاک میں ہے ثقل بہت
جسم کا وزنِ طلب ہم سے سنبھلتا ہی نہیں
غالباً وقت مجھے چھوڑ گیا ہے پیچھے
یہ جو سکہ ہے میری جیب میں چلتا ہی نہیں
ہم پہ غزلیں بھی نمازوں کی طرح فرض ہوئیں
قرضِ ناخواستہ ایسا ہے کہ ٹلتا ہی نہیں
آفتاب اقبال شمیم

ہم یہ سمجھے حادثہ ٹلتا رہا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 60
آستیں میں سانپ اک پلتا رہا
ہم یہ سمجھے حادثہ ٹلتا رہا
آپ تو اک بات کہہ کر چل دئیے
رات بھر بستر مرا جلتا رہا
ایک غم سے کتنے غم پیدا ہوئے
دل ہمارا پھولتا پھلتا رہا
زندگی کی آس بھی کیا آس ہے
موج دریا پر دیا جلتا رہا
اک نظر تنکا بنی کچھ اسی طرح
دیر تک آنکھیں کوئی ملتا رہا
یہ نشاں کیسے ہیں باقیؔ دیکھنا
کون دل کی راکھ پر چلتا رہا
باقی صدیقی