ٹیگ کے محفوظات: ویراں

ہر طرف حدِّ نظَر تک ہے بیاباں جاناں

کس طرف جائیں ترے بے سر و ساماں جاناں
ہر طرف حدِّ نظَر تک ہے بیاباں جاناں
ہوتا جاتا ہے ہر اِک شہرِ محبّت تاراج
اہرمن سُنتا ہے کچھ اَور نہ یزداں جاناں
سَفَرِ عشق میں اب شرطِ وفا ختم ہُوئی
جنسِ دل ہو گئی اب اَور بھی ارزاں جاناں
کہا کہیَں کیفیتِ قلب و گذرگاہِ خیال
بستیوں کی طرح رستے بھی ہیں ویراں جاناں
دشتِ وحشت میں ہے سرمستیِ وحشت معدوم
چشمِ آہُو ہے نہ وہ لعلِ بدخشاں جاناں
پھر قزح رنگ گلستاں میں نہ آیا کوئی
پھیکا پھیکا ہے بہت رنگِ گلستاں جاناں
جس طرف دیکھتے ہیں دیکھتے رہ جاتے ہیں
اب ہے نرگس بھی ہمیں دیکھ کے حیراں جاناں
تیرے دیوانے کو بہلانے کے ساماں ہیں بہم
کُنجِ تنہائی ہے اور یادوں کے طوفاں جاناں
یوں ہی بے حال رہے ہجر کی راتوں میں اگر
اب کے کس طرح سے گزرے گا زمستاں جاناں
دیکھ! بن جائیں گے ضامنؔ کی غزل کی پہچان
زخم تَو زخم ہیں وہ لاکھ ہَوں پنہاں جاناں
ضامن جعفری

تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی

محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی
تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی
تھا لطفِ وصل اور کبھی افسونِ انتظار
یوں دردِ ہجر سلسلہ جنباں نہ تھا کبھی
پرساں نہ تھا کوئی تو یہ رسوائیاں نہ تھیں
ظاہر کسی پہ حالِ پریشاں نہ تھا کبھی
ہر چند غم بھی تھا مگر احساسِ غم نہ تھا
درماں نہ تھا تو ماتمِ درماں نہ تھا کبھی
دن بھی اُداس اور مری رات بھی اُداس
ایسا تو وقت اے غمِ دوراں نہ تھا کبھی
دورِ خزاں میں یوں مرے دل کو قرار ہے
میں جیسے آشنائے بہاراں نہ تھا کبھی
کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی
یوں اپنا گھر بہار میں ویراں نہ تھا کبھی
بے کیف و بے نشاط نہ تھی اس قدر حیات
جینا اگرچہ عشق میں آساں نہ تھا کبھی
ناصر کاظمی

جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 211
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے
پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفَس
مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کئے ہوئے
پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمک داں کئے ہوئے
پھر بھر رہا ہوں@ خامۂ مژگاں بہ خونِ دل
سازِ چمن طرازئ داماں کئے ہوئے
باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا ساماں کئے ہوئے
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کئے ہوئے
دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کئے ہوئے
پھر چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا
جاں نذرِ دلفریبئِ عنواں کئے ہوئے
مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کئے ہوئے
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کئے ہوئے
اک نوبہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منتِ درباں کئے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ@ رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے
غالب ہمیں نہ چھیڑ، کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیّۂ طوفاں کئے ہوئے
@نسخۂ مہر میں ” ہے” @ نسخۂ مہر میں ” کہ”
مرزا اسد اللہ خان غالب

کیا خرابی سر پہ لایا صومعہ ویراں کیا

دیوان چہارم غزل 1326
عشق رسوائی طلب نے مجھ کو سرگرداں کیا
کیا خرابی سر پہ لایا صومعہ ویراں کیا
ہم سے تو جز مرگ کچھ تدبیر بن آتی نہیں
تم کہو کیا تم نے درد عشق کا درماں کیا
داخل دیوانگی ہی تھی ہماری عاشقی
یعنی اس سودے میں ہم نے جان کا نقصاں کیا
شکر کیا اس کی کریمی کا ادا بندے سے ہو
ایسی اک ناچیز مشت خاک کو انساں کیا
تیغ سی بھوویں جھکائیں برچھیاں سی وے مژہ
خون کا مجھ بے سر و پا کے بلا ساماں کیا
ایک ہی انداز نے اس کافر بے مہر کے
ساکنان کعبہ کو بے دین و بے ایماں کیا
لکھنؤ دلی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس
میر کو سرگشتگی نے بے دل و حیراں کیا
میر تقی میر

کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا

دیوان سوم غزل 1096
ان نے کھینچا ہے مرے ہاتھ سے داماں اپنا
کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا
بارہا جاں لب جاں بخش سے دی جن نے ہمیں
دشمن جانی ہوا اب وہی جاناں اپنا
خلطے یاد آتے ہیں وے جب کہ بدلتے کپڑے
مجھ کو پہناتے تھے رعنائی کا ساماں اپنا
کیا ہوئی یکجہتی وہ کہ طرف تھے میرے
اب یہ طرفہ ہے کہ منھ کرتے ہیں پنہاں اپنا
جس طرح شاخ پراگندہ نظر آتے ہیں بید
تھا جنوں میں کبھو سر مو سے پریشاں اپنا
مشکلیں سینکڑوں چاہت میں ہمیں آئیں پیش
کام ہو دیکھیے کس طور سے آساں اپنا
دل فقیری سے نہیں میر کسو کا ناساز
خوش ہوا کتنا ہے یہ خانۂ ویراں اپنا
میر تقی میر

اس قدر حال ہمارا نہ پریشاں ہوتا

دیوان دوم غزل 748
ربط دل زلف سے اس کی جو نہ چسپاں ہوتا
اس قدر حال ہمارا نہ پریشاں ہوتا
ہاتھ دامن میں ترے مارتے جھنجھلاکے نہ ہم
اپنے جامے میں اگر آج گریباں ہوتا
میری زنجیر کی جھنکار نہ کوئی سنتا
شور مجنوں نہ اگر سلسلہ جنباں ہوتا
ہر سحر آئینہ رہتا ہے ترا منھ تکتا
دل کی تقلید نہ کرتا تو نہ حیراں ہوتا
وصل کے دن سے بدل کیونکے شب ہجراں ہو
شاید اس طور میں ایام کا نقصاں ہوتا
طور اپنے پہ جو ہم روتے تو پھر عالم میں
دیکھتے تم کہ وہی نوح کا طوفاں ہوتا
دل میں کیا کیا تھا ہمارے جو نہ ہوجاتی یاس
یہ نگر کاہے کو اس طرح سے ویراں ہوتا
خاک پا ہو کے ترے قد کا چمن میں رہتا
سرو اتنا نہ اکڑتا اگر انساں ہوتا
میر بھی دیر کے لوگوں ہی کی سی کہنے لگا
کچھ خدا لگتی بھی کہتا جو مسلماں ہوتا
میر تقی میر

دامن گل گریۂ خونیں سے سب افشاں ہوا

دیوان دوم غزل 710
وارد گلشن غزل خواں وہ جو دلبر یاں ہوا
دامن گل گریۂ خونیں سے سب افشاں ہوا
طائران باغ کو تھا بیت بحثی کا دماغ
پر ہر اک درد سخن سے میر کے نالاں ہوا
دل کی آبادی کو پہنچا اپنے گویا چشم زخم
دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر سب ویراں ہوا
سبز بختی پر ہے اس کی طائر سدرہ کو رشک
جو شکار اس تیغ کے سائے تلے بے جاں ہوا
خاک پر بھی دوڑتی ہے چشم مہر و ماہ چرخ
کس دنی الطبع کے گھر جا کے میں مہماں ہوا
تھا جگر میں جب تلک قطرہ ہی تھا خوں کا سرشک
اب جو آنکھوں سے تجاوز کر چلا طوفاں ہوا
اس کے میرے بیچ میں آئینہ آیا تھا ولے
صورت احوال ساری دیکھ کر حیراں ہوا
دل نے خوں ہو عشق خوباں میں بھی کیا بدلے ہیں رنگ
چہروں کو غازہ ہوا ہونٹوں کا رنگ پاں ہوا
تم جو کل اس راہ نکلے برق سے ہنستے گئے
ابر کو دیکھو کہ جب آیا ادھر گریاں ہوا
جی سے جانا بن گیا اس بن ہمیں پل مارتے
کام تو مشکل نظر آتا تھا پر آساں ہوا
جب سے ناموس جنوں گردن بندھا ہے تب سے میر
جیب جاں وابستۂ زنجیر تا داماں ہوا
میر تقی میر

کہ بھر جھولی نہ یاں سے لے گئی گل ہاے حرماں کو

دیوان اول غزل 378
نسیم مصر کب آئی سواد شہر کنعاں کو
کہ بھر جھولی نہ یاں سے لے گئی گل ہاے حرماں کو
زبان نوحہ گر ہوں میں قضا نے کیا ملایا تھا
مری طینت میں یارب سودئہ دل ہاے نالاں کو
کوئی کانٹا سررہ کا ہماری خاک پر بس ہے
گل گلزار کیا درکار ہے گور غریباں کو
یہ کیا جانوں ہوا سینے میں کیا اس دل کو اب ناصح
سحر خوں بستہ تو دیکھا تھا میں نے اپنی مژگاں کو
گل و سنبل ہیں نیرنگ قضا مت سرسری گذرے
کہ بگڑے زلف و رخ کیا کیا بناتے اس گلستاں کو
صداے آہ جیسے تیرجی کے پار ہوتی ہے
کسو بیدرد نے کھینچا کسو کے دل سے پیکاں کو
کریں بال ملک فرش رہ اس ساعت کہ محشر میں
لہو ڈوبا کفن لاویں شہید ناز خوباں کو
کیا سیر اس خرابے کا بہت اب چل کے سو رہیے
کسو دیوار کے سائے میں منھ پر لے کے داماں کو
بہاے سہل پر دیتے ہیں کس محبوب کو کف سے
قلم اس جرم پر کرنا ہے دست گل فروشاں کو
تری ہی جستجو میں گم ہوا ہے کہہ کہاں کھویا
جگر خوں گشتہ دل آزردہ میر اس خانہ ویراں کو
میر تقی میر

تیر تو نکلا مرے سینے سے لیکن جاں سمیت

دیوان اول غزل 182
سب ہوئے نادم پئے تدبیر ہو جاناں سمیت
تیر تو نکلا مرے سینے سے لیکن جاں سمیت
تنگ ہوجاوے گا عرصہ خفتگان خاک پر
گر ہمیں زیرزمیں سونپا دل نالاں سمیت
باغ کر دکھلائیں گے دامان دشت حشر کو
ہم بھی واں آئے اگر مژگان خون افشاں سمیت
قیس و فرہاد اور وامق عاقبت جی سے گئے
سب کو مارا عشق نے مجھ خانماں ویراں سمیت
اٹھ گیا پردہ نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میر
پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت
میر تقی میر

اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 22
بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرنے دیتے
اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے
دل کو صد لخت کیا سینے کو صد پارہ کیا
اور ہمیں چاک گریباں نہیں کرنے دیتے
ان کو اسلام کے لٹ جانے کا ڈر اتنا ہے
اب وہ کافر کو مسلماں نہیں کرنے دیتے
دل میں وہ آگ فروزاں ہے عدو جس کا بیاں
کوئی مضموں کسی عنواں نہیں کرنے دیتے
جان باقی ہے تو کرنے کو بہت باقی ہے
اب وہ جو کچھ کہ مری جاں نہیں کرنے دیتے
فیض احمد فیض

بن آئیگی نہ درد کا درماں کئے بغیر

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 15
گوہ شفا سے یاس پہ جب تک ہے دم میں دم
بن آئیگی نہ درد کا درماں کئے بغیر
بگڑی ہوئی بہت ہے کچھ اسباغ کی ہوا
یہ باغ کو رہے گی نہ ویراں کئے بغیر
مشکل بہت ہے گو کہ مٹانا سلف کا نام
مشکل کو ہم ٹلیں گے نہ آساں کئے بغیر
گو مے ہ تندو تلخ پہ ساقی ہے دلربا
اے شیخ بن پڑے گی نہ کچھ ہاں کئے بغیر
تکفیر جو کہ کرتے ہیں ابنائے وقت کی
چھوڑے گا وقت انہیں نہ مسلماں کئے بغیر
الطاف حسین حالی