ٹیگ کے محفوظات: وعدہ

اس میں آسودگی زیادہ تھی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 101
جب ملاقات بے ارادہ تھی
اس میں آسودگی زیادہ تھی
نہ توقع نہ انتظار نہ رنج
صبحِ ہجراں نہ شامِ وعدہ تھی
نہ تکلف نہ احتیاط نہ زعم
دوستی کی زبان سادہ تھی
جب بھی چاہا کہ گنگناؤں اسے
شاعری پیش پا فتادہ تھی
لعل سے لب چراغ سی آنکھیں
ناک ستواں جبیں کشادہ تھی
حدتِ جاں سے رنگ تانبا سا
ساغر افروز موجِ بادہ تھی
زلف کو ہمسری کا دعویٰ تھا
پھر بھی خوش قامتی زیادہ تھی
کچھ تو پیکر میں‌ تھی بلا کی تلاش
کچھ وہ کافر تنک لبادہ تھی
اپسرا تھی نہ حور تھی نہ پری
دلبری میں مگر زیادہ تھی
جتنی بے مہر، مہرباں اتنی
جتنی دشوار، اتنی سادہ تھی
اک زمانہ جسے کہے قاتل
میرے شانے پہ سر نہادہ تھی
یہ غزل دین اس غزال کی ہے
جس میں‌ہم سے وفا زیادہ تھی
وہ بھی کیا دن تھے جب فراز اس سے
عشق کم عاشقی زیادہ تھی
احمد فراز

اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 29
ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا
دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشنِ طرب میں ہم
ملبوسدلکو تن کا لبادہ نہیں کیا
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیرِ بارِ ساغروبادہ نہیں کیا
کارِ جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام
اسنےبھی التفات زیادہ نہیں کیا
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں
اتنابھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا
پروین شاکر

اور جینا ہے تو مرنے کا ارادہ کر لو

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 8
مے گساری سے ذرا ربط زیادہ کر لو
اور جینا ہے تو مرنے کا ارادہ کر لو
وُہ کہ ناخواندۂ جذبہ ہے نہیں پڑھ سکتا
اپنی تحریر کو تم جتنا بھی سادہ کر لو
ایسا سجدہ کہ زمیں تنگ نظر آنے لگے
یہ جبیں اور، ذرا اور کشادہ کر لو
امتحاں کمرۂ دنیا میں اگر دنیا ہے
روز گردان کے فعلوں کا اعادہ کر لو
پھر بتائیں گے تمہیں چشمۂ حیواں ہے کہاں
گھر سے دفتر کا ذرا ختم یہ جادہ کر لو
ٹالنے کی تمہیں ٹل جانے کی عادت ہے ہمیں
پھر سہی، اگلی ملاقات کا وعدہ کر لو
آفتاب اقبال شمیم

اب تو کرتیں ہی نہیں خواب کا وعدہ آنکھیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 352
اوڑھ لیتی ہیں ستاروں کا لبادہ آنکھیں
اب تو کرتیں ہی نہیں خواب کا وعدہ آنکھیں
کوئی گستاخ اشارہ نہ کوئی شوخ نگہ
اپنے چہرے پہ لیے پھرتا ہوں سادہ آنکھیں
دھوپ کا کرب لیے کوئی افق پر ابھرا
اپنی پلکوں میں سمٹ آئیں کشادہ آنکھیں
ایک دہلیز پہ رکھا ہے ازل سے ماتھا
ایک کھڑکی میں زمانوں سے ستادہ آنکھیں
آنکھ بھر کے تجھے دیکھیں گے کبھی سوچا تھا
اب بدلتی ہی نہیں اپنا ارادہ آنکھیں
شہر کا شہر مجھے دیکھ رہا ہے منصور
کم تماشا ہے بہت اور زیادہ آنکھیں
منصور آفاق