منصور آفاق ۔ غزل نمبر 181
مٹی مرا وجود، زمیں میری جا نماز
پڑھتی ہے جن کو چوم کے بادِ صبا نماز
اک دلنواز شخص نے دیکھا مجھے تو میں
قوسِ قزح پہ عصر کی پڑھنے لگا نماز
پڑھتے ہیں سر پہ دھوپ کی دستار باندھ کر
سایہ بچھا کے اپنا ہم اہلِ صفا نماز
لات و منات اپنے بغل میں لیے ہوئے
کعبہ کی سمت پڑھتی ہے خلقِ خدا نماز
تیرا ہے کوئی اور تعین مرا میں آپ
تیری جدا نماز ہے میری جدا نماز
جانے کب آئے پھر یہ پلٹ کر شبِ وصال
ہو جائے گی ادا تو عشاء کی قضا نماز
میں نے کہا کہ صبح ہے اب تو افق کے پاس
اس نے کہا تو کیجیے اٹھ کر ادا نماز
مت پوچھ کیسی خواہشِ دیدار تھی مجھے
برسوں میں کوہِ طور پہ پڑھتا رہا نماز
قرباں خیالِ گنبدِ خضرا پہ ہیں سجود
اقرا مری دعا ، مری غارِ حرا نماز
اس مختصر قیام میں کافی یہی مجھے
میرا مکاں درود ہے میرا دیا نماز
پندارِ جاں میں آئی ہیں تجھ سے ملاحتیں
تجھ سے ہوئے دراز یہ دستِ دعا نماز
اے خواجہء فراق ! ملاقات کے لیے
پھر پڑھ کنارِ چشمۂ حمد و ثنا نماز
اے شیخ شاہِ وقت کے دربار سے نکل
دروازہ کر رہی ہے بغاوت کا وا نماز
اس کا خیال مجھ سے قضا ہی نہیں ہوا
لگتا ہے میرے واسطے منصور تھا نماز
منصور آفاق
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔