ٹیگ کے محفوظات: وا

دُور دِل سے خدا نہیں ہوتا

چاہیے گر، تو کیا نہیں ہوتا
دُور دِل سے خدا نہیں ہوتا
کیسے بتلاؤں تجھ کو بن مرکز
دائرہ دائرہ نہیں ہوتا
دن کو تیری خبر نہیں ہوتی
رات میرا پتا نہیں ہوتا
سب ہیں لپٹے ہزار پردوں میں
درِ پہچان وا نہیں ہوتا
کیا اٹھا پائے گا وہ مے کا مزا
جس نے غم تک پیا نہیں ہوتا
یا الٰہی ترا کرم آخر
سب پہ کیوں ایک سا نہیں ہوتا
دشت تنہائی کا سفر یاؔور
ختم تیرے سوا نہیں ہوتا
یاور ماجد

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

کس کو معلوم کہ باہر بھی ہوا ہے کہ نہیں

خانۂ دل کی طرح ساری فضا ہے کہ نہیں
کس کو معلوم کہ باہر بھی ہوا ہے کہ نہیں
جشن برپا تو ہوا تھا دمِ رخصت لیکن
وہی ہنگامہ مرے بعد بپا ہے کہ نہیں
پوچھتا ہے یہ ہر اک خار سرِ دشتِ طلب
آنے والا بھی کوئی آبلہ پا ہے کہ نہیں
دیکھ تو جا کہ مسیحائے غمِ عشق اُسے
ہاتھ اب تک یونہی سینے پہ دھرا ہے کہ نہیں
دل کے تاریک در و بام سے اکثر ترا غم
پوچھتا ہے کہ کوئی میرے سوا ہے کہ نہیں
میں کہیں ہوں کہ نہیں ہوں، وہ کبھی تھا کہ نہ تھا
خود ہی کہہ دے یہ سخن بے سر و پا ہے کہ نہیں
فیصلہ لوٹ کے جانے کا ہے دشوار بہت
کس سے پوچھوں وہ مجھے بھول چکا ہے کہ نہیں
میں تو وارفتگیٔ شوق میں جاتا ہوں اُدھر
نہیں معلوم وہ آغوش بھی وا ہے کہ نہیں
جانے کیا رنگ چمن کا ہے دمِ صبحِ فراق
گُل کھلے ہیں کہ نہیں بادِ صبا ہے کہ نہیں
اے شبِ ہجر ذرا دیر کو بہلے تو یہ دل
دیکھ عرفانؔ کہیں نغمہ سرا ہے کہ نہیں
عرفان ستار

کیسی سنسان فضا ہوتی ہے

جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے
ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
جب ہر اِک سانس صدا ہوتی ہے
دل کا یہ حال ہوا تیرے بعد
جیسے وِیران سرا ہوتی ہے
رونا آتا ہے ہمیں بھی لیکن
اس میں توہینِ وفا ہوتی ہے
منہ اندھیرے کبھی اُٹھ کر دیکھو
کیا تر و تازہ ہوا ہوتی ہے
اجنبی دھیان کی ہر موج کے ساتھ
کس قدر تیز ہوا ہوتی ہے
غم کی بے نور گزرگاہوں میں
اِک کرن ذوق فزا ہوتی ہے
غمگسارِ سفرِ راہِ وفا
مژئہ آبلہ پا ہوتی ہے
گلشنِ فکر کی منہ بند کلی
شبِ مہتاب میں وا ہوتی ہے
جب نکلتی ہے نگار شبِ گل
منہ پہ شبنم کی ردا ہوتی ہے
حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے
بوئے گل، گل سے جدا ہوتی ہے
اِک نیا دَور جنم لیتا ہے
ایک تہذیب فنا ہوتی ہے
جب کوئی غم نہیں ہوتا ناصر
بے کلی دل کی سوا ہوتی ہے
ناصر کاظمی

حسن خود محوِ تماشا ہو گا

عشق جب زمزمہ پیرا ہو گا
حسن خود محوِ تماشا ہو گا
سن کے آوازۂ زنجیرِ صبا
قفسِ غنچہ کا در وا ہو گا
جرسِ شوق اگر ساتھ رہی
ہر نفس شہپرِ عنقا ہو گا
دائم آباد رہے گی دُنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
کون دیکھے گا طلوعِ خورشید
ذرّہ جب دیدۂ بینا ہو گا
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بیدرد کوئی کیا ہو گا
پھر سلگنے لگا صحرائے خیال
ابر گھر کر کہیں برسا ہو گا
پھر کسی دھیان کے صد راہے پر
دلِ حیرت زدہ تنہا ہو گا
پھر کسی صبحِ طرب کا جادو
پردۂ شب سے ہویدا ہو گا
گل زمینوں کے خنک رَمنوں میں
جشنِ رامش گری برپا ہو گا
پھر نئی رُت کا اشارہ پا کر
وہ سمن بو چمن آرا ہو گا
گلِ شب تاب کی خوشبو لے کر
ابلقِ صبح روانہ ہو گا
پھر سرِ شاخِ شعاعِ خورشید
نکہتِ گل کا بسیرا ہو گا
اک صدا سنگ میں تڑپی ہو گی
اک شرر پھول میں لرزا ہو گا
تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے
چاندنی رات نے دیکھا ہو گا
دیکھ کر آئینۂ آبِ رواں
پتہ پتہ لبِ گویا ہو گا
شام سے سوچ رہا ہوں ناصر
چاند کس شہر میں اُترا ہو گا
ناصر کاظمی

اُداسیوں کا مُداوا نہ کر سکے تو بھی

خیالِ ترکِ تمنا نہ کر سکے تو بھی
اُداسیوں کا مُداوا نہ کر سکے تو بھی
کبھی وہ وقت بھی آئے کہ کوئی لمحۂ عیش
مرے بغیر گوارا نہ کر سکے تو بھی
خدا وہ دن نہ دکھائے تجھے کہ میری طرح
مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی
میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں
بڑا مزا ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی
تجھے یہ غم کہ مری زندگی کا کیا ہو گا
مجھے یہ ضد کہ مداوا نہ کر سکے تو بھی
نہ کر خیالِ تلافی کہ میرا زخمِ وفا
وہ زخم ہے جسے اچھا نہ کر سکے تو بھی
ناصر کاظمی

آ گئے اِس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے

ہم کہ جو ہر ابر کو ابرِ کرم سمجھا کیے
آ گئے اِس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے
اُس نے اپنے منہ پہ انگلی رکھ کے آنکھیں بند کیں
میں نے کچھ کہنے کو اپنے ہونٹ جونہی وا کیے
روز لگ جاتے ہیں اُس کے صحن میں کاغذ کے ڈھیر
مستعد خط لکھنے والوں سے زیادہ ڈاکیے
ایک سورج کے لیے یہ کہکشاں در کہکشاں
اک زمیں کے واسطے سو آسماں پیدا کیے
خیر ہو چارہ گری کی میرے چارہ گر تجھے
مدتیں گزریں کسی بیمار کو اچھا کیے
باصر کاظمی

آنکھ مری کیوں وا ہے اِتنی دیر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
در کاہے کو کُھلا ہے اِتنی دیر گئے
آنکھ مری کیوں وا ہے اِتنی دیر گئے
کس نے کس کی پھر دیوار پھلانگی ہے؟
کس سے کون خفا ہے اِتنی دیر گئے
کس کی آنکھ کی آس کا تارا ٹُوٹا ہے
کس کا چین لُٹا ہے اِتنی دیر گئے
دل کے پیڑ پہ پنکھ سمیٹے سپنوں میں
ہلچل سی یہ کیا ہے اِتنی دیر گئے
کن آنکھوں کی نم میں، گُھلنے آیا ہے
بادل کیوں برسا ہے اِتنی دیر گئے
سو گئے سارے بچّے بھی اور جگنو بھی
پھر کیوں شور بپا ہے اِتنی دیر گئے
کس کو بے کل دیکھ کے ماجدؔ چندا نے
آنگن میں جھانکا ہے اِتنی دیر گئے
ماجد صدیقی

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 81
مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

کس کو معلوم کہ باہر بھی ہوا ہے کہ نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 50
خانۂ دل کی طرح ساری فضا ہے کہ نہیں
کس کو معلوم کہ باہر بھی ہوا ہے کہ نہیں
جشن برپا تو ہوا تھا دمِ رخصت لیکن
وہی ہنگامہ مرے بعد بپا ہے کہ نہیں
پوچھتا ہے یہ ہر اک خار سرِ دشتِ طلب
آنے والا بھی کوئی آبلہ پا ہے کہ نہیں
دیکھ تو جا کہ مسیحائے غمِ عشق اُسے
ہاتھ اب تک یونہی سینے پہ دھرا ہے کہ نہیں
دل کے تاریک در و بام سے اکثر ترا غم
پوچھتا ہے کہ کوئی میرے سوا ہے کہ نہیں
میں کہیں ہوں کہ نہیں ہوں، وہ کبھی تھا کہ نہ تھا
خود ہی کہہ دے یہ سخن بے سر و پا ہے کہ نہیں
فیصلہ لوٹ کے جانے کا ہے دشوار بہت
کس سے پوچھوں وہ مجھے بھول چکا ہے کہ نہیں
میں تو وارفتگیٔ شوق میں جاتا ہوں اُدھر
نہیں معلوم وہ آغوش بھی وا ہے کہ نہیں
جانے کیا رنگ چمن کا ہے دمِ صبحِ فراق
گُل کھلے ہیں کہ نہیں بادِ صبا ہے کہ نہیں
اے شبِ ہجر ذرا دیر کو بہلے تو یہ دل
دیکھ عرفانؔ کہیں نغمہ سرا ہے کہ نہیں
عرفان ستار

آپ ملتے نہیں ہے کیا کیجے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 176
کس سے اظہارِ مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہے کیا کیجے
ہو نا پایا یہ فیصلہ اب تک
آپ کیا کیجیے تو کیا کیجے
آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجے
ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جن سے ملیے اسے خفا کیجے
ہے تقاضا مری طبیعت کا
ہر کسی کو چراغ پا کیجے
ہے تو بارے یہ عالمِ اسباب
بے سبب چیخنے لگا کیجے
آج ہم کیا گلا کریں اس سے؟
گلہ تنگیِ قبا کیجے
فطق حیوان پر گراں ہے ابھی
گفتگو کم سے کم کیا کیجے
حضرتِ زلفِ غالیہ افشاں
نام اپنا صبا صبا کیجے
زندگی کا عجب معاملہ ہے
ایک لمحے میں فیصلہ کیجے
مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجے
ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھ
بیوفائی کی انتہا کیجے
کوہکن کو ہے خودکشی خواہش
شاہ بانو سے التجا کیجے
مجھ سے کہتی تھیں وہ شراب آنکھیں
آپ وہ زہر مت پیا کیجے
رنگ ہر رنگ میں ہے دوا غالب
خون تھوکوں تو واہ وا کیجے
جون ایلیا

ایک عجیب سکوت تھا ایک عجب صدا بھی تھی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 155
شام تھی اور برگ و گُل شَل تھے مگر صبا بھی تھی
ایک عجیب سکوت تھا ایک عجب صدا بھی تھی
ایک ملال کا سا حال محو تھا اپنے حال میں
رقص و نوا تھے بے طرف محفلِ شب بپا بھی تھی
سامعہء صدائے جاں بے سروکار تھا کہ تھا
ایک گماں کی داستاں برلبِ نیم وا بھی تھی
کیا مہ و سالِ ماجرا۔۔ایک پلک تھی جو میاں
بات کی ابتدا بھی تھی بات کی انتہا بھی تھی
ایک سرودِ روشنی نیمہء شب کا خواب تھا
ایک خموش تیرگی سانحہ آشنا بھی تھی
دل تیرا پیشہء گلہ کام خراب کر گیا
ورنہ تو ایک رنج کی حالتِ بے گلہ بھی تھی
دل کے معاملے جو تھے ان میں سے ایک یہ بھی ہے
اک ہوس تھی دل میں جو دل سے گریز پا بھی تھی
بال و پرِ خیال کو اب نہیں سمت وسُو نصیب
پہلے تھی ایک عجب فضا اور جو پُر فضا بھی تھی
خشک ہے چشمہء سارِ جاں زرد ہے سبزہ زارِدل
اب تو یہ سوچیے کہ یاں پہلے کبھی ہوا بھی تھی
جون ایلیا

بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 56
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا، اخلاص، قربانی، مروّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم
زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحموں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
نہیں دُنیا کو جب پرواہ ہماری
تو پھر دُنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم
برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردا کیوں کریں ہم
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم
پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم
جون ایلیا

مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 188
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی
عالم غُبارِ وحشتِ مجنوں ہے سر بسر
کب تک خیالِ طرّۂ لیلیٰ کرے کوئی
افسردگی نہیں طرب انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی
رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عُقدۂ دل وا کرے کوئی
چاکِ جگر سے جب رہِ پرسش نہ وا ہوئی
کیا فائدہ کہ جَیب کو رسوا کرے کوئی
لختِ جگر سے ہے رگِ ہر خار شاخِ گل
تا چند باغبانئِ صحرا کرے کوئی
ناکامئِ نگاہ ہے برقِ نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
ہر سنگ و خشت ہے صدفِ گوہرِ شکست
نقصاں نہیں جنوں سے جو سودا کرے کوئی
سَر بَر ہوئی نہ وعدۂ صبر آزما سے عُمر
فُرصت کہاں کہ تیری تمنّا کرے کوئی
ہے وحشتِ طبیعتِ ایجاد یاس خیز
یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی@
بیکارئ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
حسنِ فروغِ شمعِ سُخن دور ہے اسدؔ
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی
@ نوٹ: یہ مصرعہ مختلف نسخوں میں مختلف ہے۔ نسخۂ مہر: یہ درد وہ نہیں ہےکہ پیدا کرے کوئی۔ نسخۂ طاہر: یہ درد وہ نہیں ہے جو پیدا کرے کوئی نسخۂ آسی: یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی نسخۂ حمیدیہ: یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
مرزا اسد اللہ خان غالب

کہ چشمِ تنگ شاید کثرتِ نظّارہ سے وا ہو

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 143
حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو
کہ چشمِ تنگ شاید کثرتِ نظّارہ سے وا ہو
بہ قدرِ حسرتِ دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی
بھروں یک گوشۂ دامن گر آبِ ہفت دریا ہو
اگر وہ سرو قد گرمِ خرامِ ناز آ جاوے
کفِ ہر خاکِ گلشن، شکلِ قمری، نالہ فرسا ہو
مرزا اسد اللہ خان غالب

پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 76
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا
کم نہیں نازشِ ہمنامئ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا@
ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب
حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا
@کام کا ہے مرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا ۔ نسخۂ حسرت، نسخۂ مہر
مرزا اسد اللہ خان غالب

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 69
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام
مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا
ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
دِل سے مِٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا
ہے مجھے ابرِ بہاری کا برس کر کھُلنا
روتے روتے غمِ فُرقت میں فنا ہو جانا
گر نہیں نکہتِ گل کو ترے کوچے کی ہوس
کیوں ہے گردِ رہِ جَولانِ صبا ہو جانا
تاکہ تجھ پر کھُلے اعجازِ ہوائے صَیقل
دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا
بخشے ہے جلوۂ گُل، ذوقِ تماشا غالب
چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا
مرزا اسد اللہ خان غالب

تیری گلی میں لائی صبا تو بجا ہوا

دیوان پنجم غزل 1546
ہر جا پھرا غبار ہمارا اڑا ہوا
تیری گلی میں لائی صبا تو بجا ہوا
آہ سحر نے دل کی نہ کھولی گرہ کبھی
آخر نسیم سے بھی یہ غنچہ نہ وا ہوا
وے میر اثر جو شورش دل میں تھے ہیں کہاں
نالے کیے جرس نے بہت سے تو کیا ہوا
میر تقی میر

دل کو مزے سے بھی تو تنک آشنا کرو

دیوان سوم غزل 1232
زخموں پہ اپنے لون چھڑکتے رہا کرو
دل کو مزے سے بھی تو تنک آشنا کرو
کیا آنکھ بند کرکے مراقب ہوئے ہو تم
جاتے ہیں کیسے کیسے سمیں چشم وا کرو
موقوف ہرزہ گردی نہیں کچھ قلندری
زنجیر سر اتار کے زنجیر پا کرو
ہر چند اس متاع کی اب قدر کچھ نہیں
پر جس کسو کے ساتھ رہو تم وفا کرو
تدبیر کو مزاج محبت میں دخل کیا
جانکاہ اس مرض کی نہ کوئی دوا کرو
طفلی سے تم نے لطف و غضب مختلط کیے
ٹک مہر کو جدا کرو غصہ جدا کرو
بیٹھے ہو میر ہو کے درکعبہ پر فقیر
اس روسیہ کے باب میں بھی کچھ دعا کرو
میر تقی میر

کوئی دن ہی میں خاک سی یاں اڑا دی

دیوان دوم غزل 963
متاع دل اس عشق نے سب جلا دی
کوئی دن ہی میں خاک سی یاں اڑا دی
دلیل اس بیاباں میں دل ہی ہے اپنا
نہ خضر و بلد یاں نہ رہبر نہ ہادی
مزاجوں میں یاس آگئی ہے ہمارے
نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی شادی
نہ پوچھو کہ چھاتی کے جلنے نے آخر
عجب آگ دل میں جگر میں لگا دی
وفا لوگ آپس میں کرتے تھے آگے
یہ رسم کہن آہ تم نے اٹھا دی
جدا ان غزالان شہری سے ہوکر
پھرے ہم بگولے سے وادی بہ وادی
صبا اس طرف کو چلی جل گئے ہم
ہوا یہ سبب اپنے مرنے کا بادی
وہ نسخہ جو دیکھا بڑھا روگ دل کا
طبیب محبت نے کیسی دوا دی
ملے قصر جنت میں پیر مغاں کو
ہمیں زیر دیوار میخانہ جا دی
نہ ہو عشق کا شور تا میر ہرگز
چلے بس تو شہروں میں کریے منادی
میر تقی میر

دل تو کچھ دھنسکا ہی جاتا ہے کروں سو کیا کروں

دیوان دوم غزل 877
کس کنے جائوں الٰہی کیا دوا پیدا کروں
دل تو کچھ دھنسکا ہی جاتا ہے کروں سو کیا کروں
لوہو روتا ہوں میں ہر اک حرف خط پر ہمدماں
اور اب رنگین جیسا تم کہو انشا کروں
چال اپنی چھوڑتا ہرگز نہیں وہ خوش خرام
شور سے کب تک قیامت ایک میں برپا کروں
مصلحت ہے میری خاموشی ہی میں اے ہم نفس
لوہو ٹپکے بات سے جو ہونٹ اپنے وا کروں
دل پریشانی مجھے دے ہے بکھیرے گل کے رنگ
آپ کو جوں غنچہ کیونکر آہ میں یکجا کروں
ایک چشمک ہی چلی جاتی ہے گل کی میری اور
یعنی بازار جنوں میں جائوں کچھ سودا کروں
خوار تو آخر کیا ہے گلیوں میں تونے مجھے
تو سہی اے عشق جو تجھ کو بھی میں رسوا کروں
خاک اڑاتا اشک افشاں آن نکلوں میں تو پھر
دشت کو دریا کروں بستی کے تیں صحرا کروں
کعبے جانے سے نہیں کچھ شیخ مجھ کو اتنا شوق
چال وہ بتلا کہ میں دل میں کسو کے جا کروں
اب کے ہمت صرف کر جو اس سے جی اچٹے مرا
پھر دعا اے میر مت کریو اگر ایسا کروں
میر تقی میر

غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز

دیوان دوم غزل 818
اس شوخ سے سنا نہیں نام صبا ہنوز
غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز
عاشق کے اس کو گریۂ خونیں کا درد کیا
آنسو نہیں ہے آنکھ سے جس کی گرا ہنوز
کیا جانے وہ کہ گذرے ہے یاروں کے جی پہ کیا
مطلق کسو سے اس کا نہیں دل لگا ہنوز
برسوں میں نامہ بر سے مرا نام جو سنا
کہنے لگا کہ زندہ ہے وہ ننگ کیا ہنوز
گھگھیاتے رات کے تئیں باچھیں تو پھٹ گئیں
ناواقف قبول ہے لیکن دعا ہنوز
کیا کیا کرے ہے حجتیں قاصد سے لیتے خط
حالانکہ وہ ہوا نہیں حرف آشنا ہنوز
سو بار ایک دم میں گیا ڈوب ڈوب جی
پر بحر غم کی پائی نہ کچھ انتہا ہنوز
خط سے ہے بے وفائی حسن اس کی آئینہ
ہم سادگی سے رکھتے ہیں چشم وفا ہنوز
سو عقدے فرط شوق سے پیش آئے دل کو یاں
واں بند اس قبا کے نہیں ہوتے وا ہنوز
یاں میر ہم تو پہنچ گئے مرگ کے قریب
واں دلبروں کو ہے وہی قصد جفا ہنوز
میر تقی میر

ہم برے ہی سہی بھلا صاحب

دیوان دوم غزل 775
جو کہو تم سو ہے بجا صاحب
ہم برے ہی سہی بھلا صاحب
سادہ ذہنی میں نکتہ چیں تھے تم
اب تو ہیں حرف آشنا صاحب
نہ دیا رحم ٹک بتوں کے تئیں
کیا کیا ہائے یہ خدا صاحب
بندگی ایک اپنی کیا کم ہے
اور کچھ تم سے کہیے کیا صاحب
مہرافزا ہے منھ تمھارا ہی
کچھ غضب تو نہیں ہوا صاحب
خط کے پھٹنے کا تم سے کیا شکوہ
اپنے طالع کا یہ لکھا صاحب
پھر گئیں آنکھیں تم نہ آن پھرے
دیکھا تم کو بھی واہ وا صاحب
شوق رخ یاد لب غم دیدار
جی میں کیا کیا مرے رہا صاحب
بھول جانا نہیں غلام کا خوب
یاد خاطر رہے مرا صاحب
کن نے سن شعر میر یہ نہ کہا
کہیو پھر ہائے کیا کہا صاحب
میر تقی میر

تجھ پر کوئی اے کام جاں دیکھا نہ یوں مرتا ہوا

دیوان دوم غزل 714
عاشق ترے لاکھوں ہوئے مجھ سا نہ پھر پیدا ہوا
تجھ پر کوئی اے کام جاں دیکھا نہ یوں مرتا ہوا
مدت ہوئی الفت گئی برسوں ہوئے طاقت گئی
دل مضطرب ایسا نہ تھا کیا جانیے اب کیا ہوا
کل صبح سیر باغ میں دل اور میرا رک گیا
بلبل نہ بولا منھ سے کچھ گل ٹک نہ مجھ سے وا ہوا
وے دن گئے جو یاں کبھو اٹھتا تھا دل سے جوش سا
اب لگ گئے رونے جہاں پل مارتے دریا ہوا
کتنوں کے دل بے جاں ہوئے کتنے نہ جانا کیا ہوئے
چلنے میں اس کے دو قدم ہنگامہ اک برپا ہوا
مستی میں لغزش ہو گئی معذور رکھا چاہیے
اے اہل مسجد اس طرف آیا ہوں میں بہکا ہوا
جوں حسن ہے اک فتنہ گر توں عشق بھی ہے پردہ در
وہ شہرئہ عالم ہوا میں خلق میں رسوا ہوا
فرہاد و مجنوں ووں گئے ہم اور وامق یوں چلے
اس عارضے سے چاہ کے وہ کون سا اچھا ہوا
یا حرف خط ہے درمیاں یا گیسوئوں کا ہے بیاں
کیا میر صاحب کے تئیں پھر ان دنوں سودا ہوا
میر تقی میر

شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا

دیوان دوم غزل 670
تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا
شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا
قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور
جاتا ہے اب تو جی ہی ہمارا چلا ہوا
وہ تو نہیں کہ اشک تھمے ہی نہ آنکھ سے
نکلے ہے کوئی لخت دل اب سو جلا ہوا
حیران رنگ باغ جہاں تھا بہت رکا
تصویر کی کلی کی طرح دل نہ وا ہوا
عالم کی بے فضائی سے تنگ آگئے تھے ہم
جاگہ سے دل گیا جو ہمارا بجا ہوا
درپے ہمارے جی کے ہوا غیر کے لیے
انجام کار مدعی کا مدعا ہوا
اس کے گئے پہ دل کی خرابی نہ پوچھیے
جیسے کسو کا کوئی نگر ہو لٹا ہوا
بدتر ہے زیست مرگ سے ہجران یار میں
بیمار دل بھلا نہ ہوا تو بھلا ہوا
کہتا تھا میر حال تو جب تک تو تھا بھلا
کچھ ضبط کرتے کرتے ترا حال کیا ہوا
میر تقی میر

الم جو یہ ہے تو دردمندو کہاں تلک تم دوا کروگے

دیوان اول غزل 612
کرو توکل کہ عاشقی میں نہ یوں کروگے تو کیا کروگے
الم جو یہ ہے تو دردمندو کہاں تلک تم دوا کروگے
جگر میں طاقت کہاں ہے اتنی کہ درد ہجراں سے مرتے رہیے
ہزاروں وعدے وصال کے تھے کوئی بھی جیتے وفا کروگے
جہاں کی مسلخ تمام حسرت نہیں ہے تس پر نگہ کی فرصت
نظر پڑے گی بسان بسمل کبھو جو مژگاں کو وا کروگے
اخیر الفت یہی نہیں ہے کہ جل کے آخر ہوئے پتنگے
ہوا جو یاں کی یہ ہے تو یارو غبار ہوکر اڑا کروگے
بلا ہے ایسا طپیدن دل کہ صبر اس پر ہے سخت مشکل
دماغ اتنا کہاں رہے گا کہ دست بر دل رہا کروگے
عدم میں ہم کو یہ غم رہے گا کہ اوروں پر اب ستم رہے گا
تمھیں تو لت ہے ستانے ہی کی کسو پر آخر جفا کروگے
اگرچہ اب تو خفا ہو لیکن موئے گئے پر کبھو ہمارے
جو یاد ہم کو کروگے پیارے تو ہاتھ اپنے ملا کروگے
سحر کو محراب تیغ قاتل کبھو جو یارو ادھر ہو مائل
تو ایک سجدہ بسان بسمل مری طرف سے ادا کروگے
غم محبت سے میر صاحب بتنگ ہوں میں فقیر ہو تم
جو وقت ہو گا کبھو مساعد تو میرے حق میں دعا کروگے
میر تقی میر

کیا ناز کر رہے ہو اب ہم میں کیا رہا ہے

دیوان اول غزل 555
طاقت نہیں ہے دل میں نے جی بجا رہا ہے
کیا ناز کر رہے ہو اب ہم میں کیا رہا ہے
جیب اور آستیں سے رونے کا کام گذرا
سارا نچوڑ اب تو دامن پر آرہا ہے
اب چیت گر نہیں کچھ تازہ ہوا ہوں بیکل
آیا ہوں جب بخود میں جی اس میں جارہا ہے
کاہے کا پاس اب تو رسوائی دور پہنچی
راز محبت اپنا کس سے چھپا رہا ہے
گرد رہ اس کی یارب کس اور سے اٹھے گی
سو سو غزال ہر سو آنکھیں لگا رہا ہے
بندے تو طرحدارو ہیں طرح کش تمھارے
پھر چاہتے ہو کیا تم اب اک خدا رہا ہے
دیکھ اس دہن کو ہر دم اے آرسی کہ یوں ہی
خوبی کا در کسو کے منھ پر بھی وا رہا ہے
وے لطف کی نگاہیں پہلے فریب ہیں سب
کس سے وہ بے مروت پھر آشنا رہا ہے
اتنا خزاں کرے ہے کب زرد رنگ پر یاں
تو بھی کسو نگہ سے اے گل جدا رہا ہے
رہتے ہیں داغ اکثر نان و نمک کی خاطر
جینے کا اس سمیں میں اب کیا مزہ رہا ہے
اب چاہتا نہیں ہے بوسہ جو تیرے لب سے
جینے سے میر شاید کچھ دل اٹھا رہا ہے
میر تقی میر

پامال ہو گئے تو نہ جانا کہ کیا ہوئے

دیوان اول غزل 498
یاں سرکشاں جو صاحب تاج و لوا ہوئے
پامال ہو گئے تو نہ جانا کہ کیا ہوئے
دیکھی نہ ایک چشمک گل بھی چمن میں آہ
ہم آخر بہار قفس سے رہا ہوئے
پچھتائوگے بہت جو گئے ہم جہان سے
آدم کی قدر ہوتی ہے ظاہر جدا ہوئے
تجھ بن دماغ صحبت اہل چمن نہ تھا
گل وا ہوئے ہزار ولے ہم نہ وا ہوئے
سر دے کے میر ہم نے فراغت کی عشق میں
ذمے ہمارے بوجھ تھا بارے ادا ہوئے
میر تقی میر

اور مطلق اب دماغ اپنا وفا کرتا نہیں

دیوان اول غزل 347
آہ وہ عاشق ستم ترک جفا کرتا نہیں
اور مطلق اب دماغ اپنا وفا کرتا نہیں
بات میں غیروں کو چپ کردوں ولیکن کیا کروں
وہ سخن نشنو تنک میرا کہا کرتا نہیں
روز بدتر جیسے بیمار اجل ہے دل کا حال
یہ سمجھ کر ہم نشیں اب میں دوا کرتا نہیں
گوئیا باب اجابت ہجر میں تیغا ہوا
ورنہ کس شب آپ کو میں بددعا کرتا نہیں
بیکسان عشق اس کے آہ کس کے پاس جائیں
گور بن کوئی صلا میں لب کو وا کرتا نہیں
چھوٹنا ممکن نہیں اپنا قفس کی قید سے
مرغ سیر آہنگ کو کوئی رہا کرتا نہیں
چرخ کی بھی کج ادائی ہم ہی پر جاتی ہے پیش
ناز کو اس سے تو اک دم بھی جدا کرتا نہیں
دیکھ اسے بے دید ہو آنکھوں نے کیا دیکھا بھلا
دل بھی بد کرتا ہے مجھ سے تو بھلا کرتا نہیں
کیونکے دیکھی جائے یہ بیگانہ وضعی مجھ سے شوخ
تو تو ایدھر یک نگاہ آشنا کرتا نہیں
کیا کہوں پہنچا کہاں تک میر اپنا کارشوق
یاں سے کس دن اک نیا قاصد چلا کرتا نہیں
میر تقی میر

بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز

دیوان اول غزل 231
ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز
باقی نہیں ہے دل میں یہ غم ہے بجا ہنوز
ٹپکے ہے خون دم بہ دم آنکھوں سے تا ہنوز
دن رات کو کھنچا ہے قیامت کا اور میں
پھرتا ہوں منھ پہ خاک ملے جابجا ہنوز
خط کاڑھ لا کے تم تو منڈا بھی چلے ولے
ہوتی نہیں ہماری تمھاری صفا ہنوز
غنچے چمن چمن کھلے اس باغ دہر میں
دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز
گذری نہ پار عرش کہ تسکین ہو مجھے
افسوس میری آہ رہی نارسا ہنوز
احوال نامہ بر سے مرا سن کے کہہ اٹھا
جیتا ہے وہ ستم زدہ مہجور کیا ہنوز
غنچہ نہ بوجھ دل ہے کسی مجھ سے زار کا
کھلتا نہیں جو سعی سے تیری صبا ہنوز
توڑا تھا کس کا شیشۂ دل تونے سنگ دل
ہے دل خراش کوچے میں تیرے صدا ہنوز
چلو میں اس کے میرا لہو تھا سو پی چکا
اڑتا نہیں ہے طائر رنگ حنا ہنوز
بے بال و پر اسیر ہوں کنج قفس میں میر
جاتی نہیں ہے سر سے چمن کی ہوا ہنوز
میر تقی میر

دل جو عقدہ تھا سخت وا نہ ہوا

دیوان اول غزل 142
سینہ دشنوں سے چاک تا نہ ہوا
دل جو عقدہ تھا سخت وا نہ ہوا
سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں
دل سے اک داغ ہی جدا نہ ہوا
ظلم و جور و جفا ستم بیداد
عشق میں تیرے ہم پہ کیا نہ ہوا
ہم تو ناکام ہی جہاں میں رہے
یاں کبھو اپنا مدعا نہ ہوا
میر افسوس وہ کہ جو کوئی
اس کے دروازے کا گدا نہ ہوا
میر تقی میر

پر اتنا بھی ظالم نہ رسوا ہوا تھا

دیوان اول غزل 137
ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا
پر اتنا بھی ظالم نہ رسوا ہوا تھا
خزاں التفات اس پہ کرتی بجا تھی
یہ غنچہ چمن میں ابھی وا ہوا تھا
کہاں تھا تو اس طور آنے سے میرے
گلی میں تری کل تماشا ہوا تھا
گئی ہوتی سر آبلوں کے پہ ہوئی خیر
بڑا قضیہ خاروں سے برپا ہوا تھا
گریباں سے تب ہاتھ اٹھایا تھا میں نے
مری اور دامان صحرا ہوا تھا
زہے طالع اے میر ان نے یہ پوچھا
کہاں تھا تو اب تک تجھے کیا ہوا تھا
میر تقی میر

کبھی تقدیر کا خواہش سے سمجھوتا نہیں ہوتا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 45
جو ہونا چاہئے اس کے علاوہ کیا نہیں ہوتا
کبھی تقدیر کا خواہش سے سمجھوتا نہیں ہوتا
بچھڑنا حادثہ بن جائے خود جاں سے بچھڑنے کا
کس کے ساتھ ایسا ربط بھی اچھا نہیں ہوتا
حقیقت پر گماں ، پھر اس گماں پر بھی گماں کرنا
یہ صورت ہو تو عکس افروز آئینہ نہیں ہوتا
ہمیں نظّارہ کرواتا ہے بے ساحل سمندر کا
وُہ آنسو جو ہماری آنکھ پر افشا نہیں ہوتا
ہم اپنے آپ کو اس شہر کا حاکم سمجھتے ہیں
ہمیشہ کی طرح جب جیب میں پیسہ نہیں ہوتا
لگا ہے قفل پر چہرے پر نامانوس چہرے کا
کہیں پہچان کا دروازہ ہم پر وا نہیں ہوتا
آفتاب اقبال شمیم

خود میں مثال نقشۂ دنیا بٹا رہا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 19
میں کیا ہوں کیا نہیں ، یہی جھگڑا پڑا رہا
خود میں مثال نقشۂ دنیا بٹا رہا
کرتا بھی کیا کہ آتشِ دل تیز تھی بہت
تا عمر اپنی جان میں پگھلا ہوا رہا
ہر بار خود سے ڈر گیا آئینہ دیکھ کر
میں اپنے آپ میں بھی کوئی دوسرا رہا
اِس گھر سے لمحہ وار نکالا گیا مجھے
یک طرفہ مجھ پہ ہست کا دروازہ وا رہا
شاید کہ زندگی کوئی تمثیل گاہ تھی
ورنہ میں کیوں خود اپنا تماشا بنا رہا
جس کی زباں تھی جس کے اشاروں سے مختلف
میں اُس کے در پہ اپنا پتا پوچھتا رہا
آفتاب اقبال شمیم

ہم وہی کرتے ہیں جو خلقِ خدا کرتی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 339
اب زباں خنجرِ قاتل کی ثنا کرتی ہے
ہم وہی کرتے ہیں جو خلقِ خدا کرتی ہے
پھر کوئی رات بجھا دیتی ہے میری آنکھیں
پھر کوئی صبح دریچے مرے وا کرتی ہے
ایک پیمانِ وفا خاک بسر ہے سرِ شام
خیمہ خالی ہوا تنہائی عزا کرتی ہے
ہو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیر صدا کرتی ہے
کیسی مٹی ہے کہ دامن سے لپٹتی ہی نہیں
کیسی ماں ہے کہ جو بچوں کو جدا کرتی ہے
اب نمودار ہو اس گرد سے اے ناقہ سوار
کب سے بستی ترے ملنے کی دُعا کرتی ہے
عرفان صدیقی

اور پھر ایک دن دل کی ساری زمیں درد کی مملکت میں ملا لی گئی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 216
لشکرِ عشق نے جب سے خیمے کیے کچھ نہ کچھ روز سرحد بڑھا لی گئی
اور پھر ایک دن دل کی ساری زمیں درد کی مملکت میں ملا لی گئی
رات کو رک کے صحرا جگایا گیا جب تھکن سے بدن کی طنابیں گریں
اپنے ہاتھوں کے تکیے بنائے گئے اپنی مٹی کی چادر بچھالی گئی
ایک چڑیا کی آواز آتی رہی میرے بچوں کو مجھ سے چھڑایا گیا
میری بستی سے مجھ کو نکالا گیا میرے جنگل میں بستی بسا لی گئی
دستِ خالی پہ کیا حوصلہ کیجئے کیسے جینے کی قیمت ادا کیجئے
اب کے دربار میں نذرِ سر بھیج کر بچ نکلنے کی صورت نکالی گئی
کوچۂ رہزناں سے گزرتے ہوئے کچھ بچانا بھی تھا کچھ لٹانا بھی تھا
اپنی صدیوں کا سونا لٹایا گیا اپنے خوابوں کی دُنیا بچالی گئی
ختم ہوتا ہے اس رات کا ماجرا اب یہ کیا پوچھتے ہو کہ پھر کیا ہوا
پھر چراغوں کی آنکھیں بجھا دی گئیں پھر گلوں کی زباں کاٹ ڈالی گئی
سارے منظر غبارِ پسِ کارواں ہو گئے بام و در سب دھواں ہو گئے
اب مناجات کا وقت ہے گھر چلو سیر کی جاچکی خاک اڑا لی گئی
عرفان صدیقی

بمباری نے کرنوں بھری تاریخ بجھا دی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 450
آثارِ قدیمہ ، مری تہذیب مٹا دی
بمباری نے کرنوں بھری تاریخ بجھا دی
وہ بھی تو درِ کعبہ پہ سجاآتے تھے نظمیں
میں نے بھی اباسین میں اک نظم بہادی
جو علم کے معروف سمندر ہیں انہوں نے
اک آگ کتب خانۂ دجلہ میں لگادی
اطلاع کی کوئی بیل نہ بجی خانۂ دل میں
اخبار بھی کرتے رہے تصویری منادی
یہ ڈیڑھ ارب بھوک زدہ آدمی کیوں ہیں
کچھ بول چناروں بھری کشمیر کی وادی
پھر رات کی چادر پہ ابھر آئے ستارے
پھر روشنی منصور اندھیرے میں ملادی
منصور آفاق

پڑھتی ہے جن کو چوم کے بادِ صبا نماز

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 181
مٹی مرا وجود، زمیں میری جا نماز
پڑھتی ہے جن کو چوم کے بادِ صبا نماز
اک دلنواز شخص نے دیکھا مجھے تو میں
قوسِ قزح پہ عصر کی پڑھنے لگا نماز
پڑھتے ہیں سر پہ دھوپ کی دستار باندھ کر
سایہ بچھا کے اپنا ہم اہلِ صفا نماز
لات و منات اپنے بغل میں لیے ہوئے
کعبہ کی سمت پڑھتی ہے خلقِ خدا نماز
تیرا ہے کوئی اور تعین مرا میں آپ
تیری جدا نماز ہے میری جدا نماز
جانے کب آئے پھر یہ پلٹ کر شبِ وصال
ہو جائے گی ادا تو عشاء کی قضا نماز
میں نے کہا کہ صبح ہے اب تو افق کے پاس
اس نے کہا تو کیجیے اٹھ کر ادا نماز
مت پوچھ کیسی خواہشِ دیدار تھی مجھے
برسوں میں کوہِ طور پہ پڑھتا رہا نماز
قرباں خیالِ گنبدِ خضرا پہ ہیں سجود
اقرا مری دعا ، مری غارِ حرا نماز
اس مختصر قیام میں کافی یہی مجھے
میرا مکاں درود ہے میرا دیا نماز
پندارِ جاں میں آئی ہیں تجھ سے ملاحتیں
تجھ سے ہوئے دراز یہ دستِ دعا نماز
اے خواجہء فراق ! ملاقات کے لیے
پھر پڑھ کنارِ چشمۂ حمد و ثنا نماز
اے شیخ شاہِ وقت کے دربار سے نکل
دروازہ کر رہی ہے بغاوت کا وا نماز
اس کا خیال مجھ سے قضا ہی نہیں ہوا
لگتا ہے میرے واسطے منصور تھا نماز
منصور آفاق

دل سے اب پوچھ خدا ہے کہ نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 143
وقف رستے میں کھڑا ہے کہ نہیں
دل سے اب پوچھ خدا ہے کہ نہیں
صحبت شیشہ گراں سے انکار
سنگ آئنہ بنا ہے کہ نہیں
ہر کرن وقت سحر کہتی ہے
روزن دل کوئی وا ہے کہ نہیں
رنگ ہر بات میں بھرنے والو
قصہ کچھ آگے بڑھا ہے کہ نہیں
زندگی جرم بنی جاتی ہے
جرم کی کوئی سزا ہے کہ نہیں
دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں
کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں
زخم دل منزل جاں تک آئے
سنگ رہ ساتھ چلا ہے کہ نہیں
کھو گئے راہ کے سناٹے میں
اب کوئی دل کی صدا ہے کہ نہیں
ہم ترسنے لگے بوئے گل کو
کہیں گلشن میں صبا ہے کہ نہیں
حکم حاکم ہے کہ خاموش رہو
بولو اب کوئی گلہ ہے کہ نہیں
چپ تو ہو جاتے ہیں لیکن باقیؔ
اس میں بھی اپنا بھلا ہے کہ نہیں
باقی صدیقی

دل دے وسدے شہروں لنگھدیاں، پاگل ہو گئی وا

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 107
ویکھ ویکھ کے بوہے بھِیڑے، کُنڈیاں رہئی کھڑکا
دل دے وسدے شہروں لنگھدیاں، پاگل ہو گئی وا
مکھڑے مکھڑے پَچھ دُکھاں دے، ویکھ نہ سکے کو
اکھیوں اکھیں ٹھاٹھاں مارے، لہو دا اک دریا
مَتّھے ائی نہ لگاّں تیرے، میں اَؤں بُھگا رُکھ
لٹکے لاندئیے وگدئیے وائے، مینوں ہتھ نہ لا
سُفنیاں دے ایس شیش محل چ، لہہ آئی کیہڑی حور
سِر تے چھتر تان پھُلاں دا، چانن ہیٹھ وچھا
دھپ چڑھے یا چانن لشکے، اوڑک گوہڑی چھاں
کوئی وی جان نہ سکیا ماجدُ سُکھ دے نگھّے تا
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)