ٹیگ کے محفوظات: واں

بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہوجائے گا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 89
گر نہ ‘اندوہِ شبِ فرقت ‘بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہوجائے گا
زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب
پر توِ مہتاب سیلِ خانماں ہوجائے گا
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہوجائے گا
دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہوجائے گا
سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہوجائے گا
گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط
شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہوجائے گا
باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گلِ تر ایک "چشمِ خوں فشاں” ہوجائے گا
وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہوجائے گا
فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہوجائے گا
مرزا اسد اللہ خان غالب

ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں

دیوان سوم غزل 1185
رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں
ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں
شمع ہی سر نہ دے گئی برباد
کشتہ اپنی زباں کے ہم بھی ہیں
ہم کو مجنوں کو عشق میں مت بوجھ
ننگ اس خانداں کے ہم بھی ہیں
جس چمن زار کا ہے تو گل تر
بلبل اس گلستاں کے ہم بھی ہیں
نہیں مجنوں سے دل قوی لیکن
یار اس ناتواں کے ہم بھی ہیں
بوسہ مت دے کسو کے در پہ نسیم
خاک اس آستاں کے ہم بھی ہیں
گو شب اس در سے دور پہروں پھریں
پاس تو پاسباں کے ہم بھی ہیں
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
مر گئے مر گئے نہیں تو نہیں
خاک سے منھ کو ڈھانکے ہم بھی ہیں
اپنا شیوہ نہیں کجی یوں تو
یار جی ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں
اس سرے کی ہے پارسائی میر
معتقد اس جواں کے ہم بھی ہیں
میر تقی میر

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

دیوان اول غزل 472
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
خانۂ دل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے
نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
شور اک آسماں سے اٹھتا ہے
لڑتی ہے اس کی چشم شوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے
سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز
دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
میر تقی میر

آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے لامکاں تک

دیوان اول غزل 254
اب وہ نہیں کہ شورش رہتی تھی آسماں تک
آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے لامکاں تک
بہ بھی گیا بدن کا سب ہوکے گوشت پانی
اب کارد اے عزیزاں پہنچی ہے استخواں تک
تصویر کی سی شمعیں خاموش جلتے ہیں ہم
سوز دروں ہمارا آتا نہیں زباں تک
روتے پھرے ہیں لوہو یک عمر اس گلی میں
باغ و بہار ہی ہے جاوے نظر جہاں تک
آنکھیں جو روتے روتے جاتی رہیں بجا ہے
انصاف کر کہ کوئی دیکھے ستم کہاں تک
بے لطف تیرے کیونکر تجھ تک پہنچ سکیں ہم
ہیں سنگ راہ اپنی کتنے یہاں سے واں تک
ہم بے نصیب سر کو پتھر سے کیوں نہ پھوڑیں
پہنچا کبھو نہ جبہہ اس سنگ آستاں تک
مانند طیر نوپر اٹھے جہاں گئے ہم
دشوار ہے ہمارا آنا پھر آشیاں تک
تن کام میں ہمارے دیتا نہیں وہی کچھ
حاضر ہیں میر ہم تو اپنی طرف سے جاں تک
میر تقی میر

القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

دیوان اول غزل 25
شکوہ کروں میں کب تک اس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا
گریے پہ رنگ آیا قید قفس سے شاید
خوں ہو گیا جگر میں اب داغ گلستاں کا
لے جھاڑو ٹوکرا ہی آتا ہے صبح ہوتے
جاروب کش مگر ہے خورشید اس کے ہاں کا
دی آگ رنگ گل نے واں اے صبا چمن کو
یاں ہم جلے قفس میں سن حال آشیاں کا
ہر صبح میرے سر پر اک حادثہ نیا ہے
پیوند ہو زمیں کا شیوہ اس آسماں کا
ان صید افگنوں کا کیا ہو شکار کوئی
ہوتا نہیں ہے آخر کام ان کے امتحاں کا
تب تو مجھے کیا تھا تیروں سے صید اپنا
اب کرتے ہیں نشانہ ہر میرے استخواں کا
فتراک جس کا اکثر لوہو میں تر رہے ہے
وہ قصد کب کرے ہے اس صید ناتواں کا
کم فرصتی جہاں کے مجمع کی کچھ نہ پوچھو
احوال کیا کہوں میں اس مجلس رواں کا
سجدہ کریں ہیں سن کر اوباش سارے اس کو
سید پسر وہ پیارا ہے گا امام بانکا
ناحق شناسی ہے یہ زاہد نہ کر برابر
طاعت سے سو برس کی سجدہ اس آستاں کا
ہیں دشت اب یہ جیتے بستے تھے شہر سارے
ویرانۂ کہن ہے معمورہ اس جہاں کا
جس دن کہ اس کے منھ سے برقع اٹھے گا سنیو
اس روز سے جہاں میں خورشید پھر نہ جھانکا
ناحق یہ ظلم کرنا انصاف کہہ پیارے
ہے کون سی جگہ کا کس شہر کا کہاں کا
سودائی ہو تو رکھے بازار عشق میں پا
سر مفت بیچتے ہیں یہ کچھ چلن ہے واں کا
سو گالی ایک چشمک اتنا سلوک تو ہے
اوباش خانہ جنگ اس خوش چشم بدزباں کا
یا روئے یا رلایا اپنی تو یوں ہی گذری
کیا ذکر ہم صفیراں یاران شادماں کا
قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی
گلشن میں تھے تو ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا
پوچھو تو میر سے کیا کوئی نظر پڑا ہے
چہرہ اتر رہا ہے کچھ آج اس جواں کا
میر تقی میر