ٹیگ کے محفوظات: واقعات

سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر

مجید امجد ۔ غزل نمبر 25
گہرے سُروں میں عرضِ نوائے حیات کر
سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر
یہ دوریوں کا سیلِ رواں، برگِ نامہ بھیج
یہ فاصلوں کے بندِ گراں، کوئی بات کر
تیرا دیار، رات، مری بانسری کی لے
اس خوابِ دل نشیں کو مری کائنات کر
میرے غموں کو اپنے خیالوں میں بار دے
ان الجھنوں کو سلسلۂ واقعات کر
آ، ایک دن، میرے دلِ ویراں میں بیٹھ کر
اس دشت کے سکوتِ سخن جُو سے بات کر
امجد نشاطِ زیست اسی کشمکش میں ہے
مرنے کا قصد، جینے کا عزم، ایک سات کر!
مجید امجد

اک نئی کائنات سے گزرا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 28
جب بھی میں کشفِ ذات سے گزرا
اک نئی کائنات سے گزرا
ہاتھ میں لالٹین لے کر میں
جبر کی کالی رات سے گزرا
آتی جاتی ہوئی کہانی میں
کیا کہوں کتنے ہاتھ سے گزرا
موت کی دلکشی زیادہ ہے
میں مقامِ ثبات سے گزرا
جستہ جستہ دلِ تباہ مرا
جسم کی نفسیات سے گزرا
لمحہ بھر ہی وہاں رہا لیکن
میں بڑے واقعات سے گزرا
لفظ میرا ترے تعاقب میں
حوضِ آبِ حیات سے گزرا
ایک تُو ہی نہیں ہے غم کا سبب
دل کئی حادثات سے گزرا
یہ بھی اِنکار کی تجلی ہے
ذہن لات و منات سے گزرا
دستِ اقبال تھام کر منصور
کعبہ و سومنات سے گزرا
منصور آفاق

میں خدا اور کائنات

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 3
چل رہے ہیں ایک ساتھ
میں خدا اور کائنات
عرش پر بس بیٹھ کر
کن فکاں کا چرخہ کات
مرد و زن کا اجتماع
بیچ صدیوں کی قنات
دو وجودوں میں جلی
سردیوں کی ایک رات
بند ذرے میں کوئی
کائناتی واردات
آسیا میں قطب کی
سو گئیں سولہ جہات
پانیوں پر قرض ہے
فدیۂ نہر فرات
تُو پگھلتی تارکول
میں سڑک کا خشک پات
تیرا چہرہ جاوداں
تیری زلفوں کو ثبات
رحمتِ کن کا فروغ
جشن ہائے شب برات
شب تھی خالی چاند سے
دل رہا اندیشوں وات
نت نئے مفہوم دے
تیری آنکھوں کی لغات
آنکھ سے لکھا گیا
قصۂ نا ممکنات
گر پڑی ہے آنکھ سے
اک قیامت خیز بات
تیرے میرے درد کا
ایک شجرہ، ایک ذات
کٹ گئے ہیں روڈ پر
دو ہوا بازوں کے ہاتھ
لکھ دی اک دیوار پر
دل کی تاریخِ وفات
موت تک محدود ہیں
ڈائری کے واقعات
منصور آفاق