اِدھر کچھ دن سے دل کی بے کلی کم ہو گئی ہے
تری خواہش ابھی ہے تو سہی، کم ہو گئی ہے
نظر دھندلا رہی ہے یا مناظر بجھ رہے ہیں
اندھیرا بڑھ گیا یا روشنی کم ہو گئی ہے
ترا ہونا تو ہے بس ایک صورت کا اضافہ
تیرے ہونے سے کیا تیری کمی کم ہو گئی ہے
خموشی کو جنوں سے دست برداری نہ سمجھو
تجسس بڑھ گیا ہے سر کشی کم ہو گئی ہے
ترا ربط اپنے گرد و پیش سے اتنا زیادہ
تو کیا خوابوں سے اب وابستگی کم ہو گئی ہے
سرِ طاقِ تمنا بجھ گئی ہے شمعِ امّید
اُداسی بڑھ گئی ہے بے دلی کم ہو گئی ہے
سبھی زندہ ہیں اور سب کی طرح میں بھی ہوں زندہ
مگر جیسے کہیں سے زندگی کم ہو گئی ہے
عرفان ستار