ٹیگ کے محفوظات: نیلم

قریب آنے لگا دُوریوں کا موسم پھر

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 39
سکوں بھی خواب ہُوا، نیند بھی ہے کم کم پھر
قریب آنے لگا دُوریوں کا موسم پھر
بنا رہی ہے تری یاد مُجھ کو سلکِ کُہر
پرو گئی مری پلکوں میں آج شبنم پھر
وہ نرم لہجے میں کُچھ کہہ رہا ہے پھر مُجھ سے
چھڑا ہے پیار کے کومل سُروں میں مدھم پھر
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سُنوں
اُلجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
نہ اُس کی بات میں سمجھوں نہ وہ مری نظریں
معاملاتِ زباں ہو چلے ہیں مبہم پھر
یہ آنے والا نیا دُکھ بھی اُس کے سر ہی گیا
چٹخ گیا مری انگشتری کا نیلم پھر
وہ ایک لمحہ کہ جب سارے رنگ ایک ہوئے
کِسی بہار نے دیکھا نہ ایسا سنگم پھر
بہت عزیز ہیں آنکھیں مری اُسے، لیکن
وہ جاتے جاتےانہیں کر گیا ہے پُر نم پھر
پروین شاکر

اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 495
بانسری بانس کے جنگل سے سنوں غم کی یونہی
اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی
کوئی امکان بظاہر تو بچھڑنے کا نہیں
یاد آئی ہے مجھے ہجر کے موسم کی یونہی
دشت کی دھوپ کوئی چیز نہیں میرے غزال
گفتگو تجھ سے ہوئی سایہ ء شیشم کی یونہی
میں نے جانا نہیں برفاب تہوں میں اس کی
بات سنتا ہوں میں بہتے ہوئے جہلم کی یونہی
برف گرتی ہے تو آتی ہے نظر خوابوں میں
اک پری زاد مجھے وادی ء نیلم کی یونہی
صبر کرتا رہا قربان حسین ابن علی
ظلم کہتا رہا حرمت ہے محرم کی یونہی
مجھ کو معلوم نہیں کون کہاں روتا ہے
بات کی سبزہ پہ بکھری ہوئی شبنم کی یونہی
اک موبائل سے بنا لینے دو تصویر مجھے
پہنے رکھو ذرا پوشاک یہ ریشم کی یونہی
ذکر ہوتا رہے لیلائے وطن کا منصور
آگ جلتی رہے بس نوحۂ ماتم کی یونہی
منصور آفاق