ٹیگ کے محفوظات: نیت

ضبط آنکھوں کی مرّوت ہو گئی

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 42
حسن کی تم پر حکومت ہو گئی
ضبط آنکھوں کی مرّوت ہو گئی
یہ نہ پوچھو کیوں یہ حالت ہو گئی
خود بدولت کی بدولت ہو گئی
لے گئے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ دل
ہوشیاری اپنی غفلت ہو گئی
وہ جو تجھ سے دوستی کرنے لگا
مجھ کو دشمن سےمحبت ہو گئی
اس قدر بھی سادگی اچھی نہیں
عاشقوں کی پاک نیت ہو گئی
مان کر دل کا کہا پچھتائے ہم
عمر بھر کو اب نصیحت ہو گئی
کیا عجب ہے گر ترا ثانی نہیں
اچھی صورت ایک صورت ہو گئی
غیر بھی روتے ہیں تیرے عشق میں
کیا مری قسمت کی قسمت ہو گئی
اس کی مژگاں پر ہوا قربان دل
تیر تکّوں پر قناعت ہو گئی
جب ریاست اپنی آبائی مٹی
نوکری کی ہم کو حاجت ہو گئی
شاعروں کی بھی طبیعت ہے ولی
جو نئی سوجھی کرامت ہو گئی
تیری زلفوں کا اثر تجھ پر نہیں
دیکھتے ہی مجھ کو وحشت ہو گئی
کھیل سمجھے تھے لڑکپن کو تیرے
بیٹھتے اٹھتے قیامت ہو گئی
مفت پیتے ہیں وہ ہر قسم کی
جن کو مے خانے کی خدمت ہو گئی
میرے دل سے غم ترا کیوں‌دور ہو
پاس رہنے کی محبت ہو گئی
کہتے ہیں کب تک کوئی گھبرا نہ جائے
دل میں رہتے رہتے مدت ہو گئی
نقشہ بگڑا رہتے رہتے غصّہ ناک
کٹ کھنی قاتل کی صورت ہو گئی
داغ کا دم ہے غنیمت بزم میں
دو گھڑی کو گرم محبت ہو گئی
داغ دہلوی

سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت

دیوان سوم غزل 1112
عجب نہیں ہے نہ جانے جو میر چاہ کی ریت
سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت
مت ان نمازیوں کو خانہ ساز دیں جانو
کہ ایک اینٹ کی خاطر یہ ڈھاتے ہیں گے مسیت
غم زمانہ سے فارغ ہیں مایہ باختگاں
قمارخانۂ آفاق میں ہے ہار ہی جیت
ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے
ہمارے عندیے میں تو ہے وہ خبیث پلیت
کسو کے بستر و سنجاب و قصر سے کیا کام
ہماری گور کے بھی ڈھیر میں مکاں ہے مبیت
ہوئے ہیں سوکھ کے عاشق طنبورے کے سے تار
رقیب دیکھو تو گاتے ہیں بیٹھے اور ہی گیت
شفق سے ہیں در و دیوار زرد شام و سحر
ہوا ہے لکھنؤ اس رہگذر میں پیلی بھیت
کہا تھا ہم نے بہت بولنا نہیں ہے خوب
ہمارے یار کو سو اب ہمیں سے بات نہ چیت
ملے تھے میر سے ہم کل کنار دریا پر
فتیلہ مو وہ جگر سوختہ ہے جیسے اتیت
میر تقی میر

اعمال چھوڑ تُو مری نیت پہ رحم کر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 172
پرودگار! حرفِ کمیت پہ رحم کر
اعمال چھوڑ تُو مری نیت پہ رحم کر
نیزے پہ سج گیا ہے وہ چہرہ حسین کا
اے بے نیاز اپنی مشیت پہ رحم کر
اک دھوپ سے بھرے ہوئے بے رحم پہر میں
کھلتی ہوئی کلی کی اذیت پہ رحم کر
کچھ دن مزارِ دل پہ جلا درد کے چراغ
کچھ مرنے والے کی بھی وصیت پہ رحم کر
اتنی اکیلگی میں بھی اپنی طلب کرے
منصور کچھ تو دل کی حمیت پہ رحم کر
منصور آفاق

دل کی صورت چپ ہیں کھیت

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 7
اب کے آیا ایسا چیت
دل کی صورت چپ ہیں کھیت
پھیلا دریا کا دامن
اوپر پانی نیچے ریت
راہوں کے سناٹے میں
ڈوب گیا دل درد سمیت
اس موسم کا نام ہے کیا
دل میں ساون منہ پر چیت
نام کو آنچ نہیں باقیؔ
دل ہے یا ندی کی ریت
باقی صدیقی