وحشَت کا نہ ذِکر آئے صحرا نہ کَہا جائے
پِھر کیسے دِوانے کو دِیوانہ کَہا جائے
یہ کِس کی ضَرورَت ہے معلوم تَو ہو یارو
کیوں پیشِ نَظَر مَنظَر اَفسانہ کہا جائے
کیوں خُون کے قَطروں پَر تحقیق نہ ہو صاحب
کیوں خُون کے قَطرے کو دَریا نہ کَہا جائے
بولے نہ سُنے کوئی یوں تَو تِری بَستی میں
جَب خُود سے کَروں باتیَں دِیوانہ کَہا جائے
ہم خواب بَہاروں کے دیکھیں یہ اِجازِت ہے
قَدغَن یہ ہے خوابوں کو سَچّا نہ کَہا جائے
خُوش ہُوں کہ وہ بَس میری ہی جان کا دُشمَن ہے
اَچّھا نَہیِں لَگتا گَر میرا نہ کَہا جائے
تُم دِل میں تَو رہتے ہو خوابوں میں نہیں آتے
اِس طَرح کے رہنے کو رہنا نہ کَہا جائے
جَب تَک مِری آنکھوں میں وہ جھانک نہ لیں ضامنؔ
صحرا کو نہ وحشت کا پیمانہ کَہا جائے
ضامن جعفری