ٹیگ کے محفوظات: نہایا

ہم سے بچھڑا تو پھر نہ آیا وُہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 137
بن کے ابرِ رواں کا سایا وُہ
ہم سے بچھڑا تو پھر نہ آیا وُہ
اُڑنے والا ہوا پہ خُوشبو سا
دیکھتے ہی لگا پرایا وُہ
جبر میں، لطف میں، تغافل میں
کیا ادا ہے نہ جس میں بھایا وُہ
جیسے پانی میں رنگ گھُل جائے
میرے خوابوں میں یُوں سمایا وُہ
مَیں کہ تھا اِک شجر تمّنا کا
برگ بن بن کے مجھ پہ چھایا وُہ
تیرتا ہے نظر میں شبنم سا
صبحدم نُور میں نہایا وُہ
آزمانے ہماری جاں ماجدؔ
کرب کیا کیا نہ ساتھ لایا وُہ
ماجد صدیقی

یہ کون شگوفہ سا چمن زار میں لایا

دیوان اول غزل 106
اس چہرے کی خوبی سے عبث گل کو جتایا
یہ کون شگوفہ سا چمن زار میں لایا
وہ آئینہ رخسار دم بازپس آیا
جب حس نہ رہا ہم کو تو دیدار دکھایا
کچھ ماہ میں اس میں نہ تفاوت ہوا ظاہر
سو بار نکالا اسے اور اس کو چھپایا
اک عمر مجھے خاک میں ملتے ہوئے گذری
کوچے میں ترے آن کے لوہو میں نہایا
سمجھا تو مجھے مرگ کے نزدیک پس از دیر
رحمت ہے مرے یار بہت دور سے آیا
یہ باغ رہا ہم سے ولے جا نہ سکے ہم
بے بال و پری نے بھی ہمیں خوب اڑایا
میں صید رمیدہ ہوں بیابان جنوں کا
رہتا ہے مرا موجب وحشت مرا سایا
یا قافلہ در قافلہ ان رستوں میں تھے لوگ
یا ایسے گئے یاں سے کہ پھر کھوج نہ پایا
رو میں نے رکھا ہے در ترسا بچگاں پر
رکھیو تو مری شرم بڑھاپے میں خدایا
ٹالا نہیں کچھ مجھ کو پتنگ آج اڑاتے
بہتوں کے تئیں بائو کا رخ ان نے بتایا
ایسے بت بے مہر سے ملتا ہے کوئی بھی
دل میر کو بھاری تھا جو پتھر سے لگایا
میر تقی میر

اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا

دیوان اول غزل 24
مارا زمیں میں گاڑا تب اس کو صبر آیا
اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا
اس گل زمیں سے اب تک اگتے ہیں سرو مائل
مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا
یکساں ہے قتل گہ اور اس کی گلی تو مجھ کو
واں خاک میں میں لوٹا یاں لوہو میں نہایا
پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو
اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا
تا چرخ نالہ پہنچا لیکن اثر نہ دیکھا
کرنے سے اب دعا کے میں ہاتھ ہی اٹھایا
تیرا ہی منھ تکے ہے کیا جانیے کہ نوخط
کیا باغ سبز تونے آئینے کو دکھایا
شادابی و لطافت ہرگز ہوئی نہ اس میں
تیری مسوں پہ گرچہ سبزے نے زہر کھایا
آخر کو مر گئے ہیں اس کی ہی جستجو میں
جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اسے نہ پایا
لگتی نہیں ہے دارو ہیں سب طبیب حیراں
اک روگ میں بساہا جی کو کہاں لگایا
کہہ ہیچ اس کے منھ کو جی میں ڈرا یہاں تو
بارے وہ شوخ اپنی خاطر میں کچھ نہ لایا
ہونا تھا مجلس آرا گر غیر کا تجھے تو
مانند شمع مجھ کو کاہے کے تیں جلایا
تھی یہ کہاں کی یاری آئینہ رو کہ تونے
دیکھا جو میر کو تو بے ہیچ منھ بنایا
میر تقی میر

کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 98
وہ اختلاف نظر درمیاں میں آیا رہا
کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا
وہاں کی روشنیاں بھی مثالِ ظلمت تھیں
جہاں جہاں مری نادیدنی کا سایا رہا
یہی کہ نذرِ تب و تابِ زر ہوئیں آنکھیں
غبارِ بے بصری بستیوں پہ چھایا رہا
یہ معجزہ تھا سرِ چشم ایک آنسو کا
تمام منظرِ شب دھوپ میں نہایا رہا
بنامِ عشق اِسے قرض جاریہ کہئے
کہ نقدِ جاں بھی ادا کر کے جو بقایا رہا
آفتاب اقبال شمیم