ٹیگ کے محفوظات: نگل

چڑیا کے بچّوں کو سانپ، نِگل جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
خاص ہے اُس سے جو اِک داؤ چل جائے گا
چڑیا کے بچّوں کو سانپ، نِگل جائے گا
ایک شڑاپ سے پانی صید دبوچ کے اپنا
بے دم کر کے اُس کو، دُور اُگل جائے گا
اُس کے تلے کی مٹی تک، بے فیض رہے گی
اِس دُنیا سے جو بھی درخت اَپَھل جائے گا
خوف دلائے گا اندھیارا مارِ سیہ کا
مینڈک سا، پیروں کو چھُو کے اُچھل جائے گا
سُورج اپنے ساتھ سحر تو لائے گا پر
کُٹیا کُٹیا ایک الاؤ جل جائے گا
کب تک عرضِ تمنّا پر کھائے گا طمانچے
لا وارث بچّوں سا دل بھی سبنھل جائے گا
ماجد کی جو خواہش بھی ہے بچّوں سی ہے
تتلی کو دیکھے گا اور مچل جائے گا
ماجد صدیقی

دیکھ سارے شہر کا نقشہ بدل جانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 159
آنگنوں سے چاند پھر آگے نکل جانے لگا
دیکھ سارے شہر کا نقشہ بدل جانے لگا
ہم بھلا تصویر کیا کھینچیں گرفتِ وقت کی
سانپ چڑیا کو سلامت ہی نِگل جانے لگا
دل تمّنا کے بر آنے پر ہے یُوں مسرور سا
جس طرح سِکّہ کوئی کھوٹا ہو چل جانے لگا
زور وُہ اب کے دکھایا ہے ہمیں امواج نے
تختۂ جاں تک بدن سے ہے اچھل جانے لگا
چرخ سے وُہ حدّتیں برسیں کہ اَب ایسا لگے
چاندنی سے بھی بدن جیسے ہو جل جانے لگا
چیونٹیوں سا تو بھلا درپے ہے کیوں اِس کوہ کے
کب مزاجِ دہر ہے ماجدؔ بدل جانے لگا
ماجد صدیقی

لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا

دیوان پنجم غزل 1567
ناخن سے بوالہوس کا گلا یوں ہی چھل گیا
لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا
دل جمع تھا جو غنچہ کے رنگوں خزاں میں تھا
اے کیا کہوں بہار گل زخم کھل گیا
بے دل ہوئے پہ کرتے تدارک جو رہتا ہوش
ہم آپ ہی میں آئے نہیں جب سے دل گیا
دیکھا نہیں پہاڑ گراں سنگ یا سبک
زوروں چڑھا تھا عشق میں فرہاد پل گیا
شبنم کی سی نمود سے تھا میں عرق عرق
یعنی کہ ہستی ننگ عدم تھی خجل گیا
غم کھینچتے ہلا نہیں جاگہ سے کیا کروں
دل جا لگے ہے دم بہ دم اودھر ہی ہل گیا
صورت نہ دیکھی ویسی کشادہ جبیں کہیں
میں میر اس تلاش میں چین و چگل گیا
میر تقی میر

رات جو تھی چاند سا گھر سے نکل کر رہ گیا

دیوان دوم غزل 720
مکث طالع دیکھ وہ ایدھر کو چل کر رہ گیا
رات جو تھی چاند سا گھر سے نکل کر رہ گیا
خواب میں کل پائوں اپنے دوست کے ملتا تھا میں
آنکھ دشمن کھل گئی سو ہاتھ مل کر رہ گیا
ہم تو تھے سرگرم پابوسی خدا نے خیر کی
نیمچہ کل خوش غلاف اس کا اگل کر رہ گیا
ہم بھی دنیا کی طلب میں سر کے بل ہوتے کھڑے
بارے اپنا پائوں اس رہ میں بچل کر رہ گیا
کیا کہوں بیتابی شب سے کہ ناچار اس بغیر
دل مرے سینے میں دو دو ہاتھ اچھل کر رہ گیا
کیا ہمیں کو یار کے تیغے نے کھاکر دم لیا
ایسے بہتیروں کو یہ اژدر نگل کر رہ گیا
دو قدم ساتھ اس جفا جو کے چلا جاتا ہے جی
بوالہوس عیار تھا دیکھا نہ ٹل کر رہ گیا
آنکھ کچھ اپنی ہی اس کے سامنے ہوتی نہیں
جن نے وہ خونخوار سج دیکھی دہل کر رہ گیا
ایک ڈھیری راکھ کی تھی صبح جاے میر پر
برسوں سے جلتا تھا شاید رات جل کر رہ گیا
میر تقی میر