ٹیگ کے محفوظات: نکاس

یہ کیا کہ قائم و دائم مرے حواس نہیں؟

افق میں ڈوبتا سورج لگا اداس نہیں
یہ کیا کہ قائم و دائم مرے حواس نہیں؟
میں زرد گرد سی پیلاہٹوں کا عکس سہی
خزاں کی اوڑھنی لیکن مرا لباس نہیں
وہ چہچہاتا پرندہ تو کر گیا ہجرت
مگر وداع سے اس کے کوئی اداس نہیں
یقین اور گماں سب حواس کے دھوکے
میں ہوں بھی یا کہ نہیں ہوں کوئی قیاس نہیں
مجھے بہت ہے مری اپنی ذات کا صحرا
تو بحر ہے کہ ہے دریا۔۔۔ مُجھی کو پیاس نہیں
ملا وہ اشک جو بہنے ہی میں نہیں آیا
ملا وہ درد کہ جس کا کوئی نکاس نہیں
اساسِ عزت و تکریم ہیں حوالے یہاں
اور اپنا ایک حوالہ بھی میرے پاس نہیں
میں عکس ہوں کہ نہیں جس کا کوئی بھی موجود
میں آسمان ہوں میری کوئی اساس نہیں
یاور ماجد

وہ آئینہ ہوں جسے روشنی ہی راس نہ ہو

کسی بھی رنگ کا، پیکر کا انعکاس نہ ہو
وہ آئینہ ہوں جسے روشنی ہی راس نہ ہو
مجھے تو ایسے ہراک آدمی پہ حیرت ہے
جو ایسے دور میں زندہ تو ہو، اُداس نہ ہو
اُس ایک رات کو یوں عمر پر محیط کیا
کہ جیسے پوری کہانی ہو، اقتباس نہ ہو
غزل میں رمز و کنایہ بہت ضروری ہے
یہی تو حسن ہے غم کا کہ بے لباس نہ ہو
یہ خود اذیتی یہ بے دلی یہ کم سخنی
یہ حال ہوتا جب رنج کا نکاس نہ ہو
عرفان ستار

ہم نے بدل لیا ہے پیالہ گلاس میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 92
وہ عطرِ خاک اب کہاں پانی کی باس میں
ہم نے بدل لیا ہے پیالہ گلاس میں
کل رات آسمان میرا میہماں رہا
کیا جانے کیا کشش تھی مِرے التماس میں
ممنون ہوں میں اپنی غزل کا، یہ دیکھئے
کیا کام کر گئی میرے غم کے نکاس میں
میں قیدِ ہفت رنگ سے آزاد ہو گیا
کل شب نقب لگا کے مکانِ حواس میں
پھر یہ فسادِ فرقہ و مسلک ہے کس لئے
تو اور میں تو ایک ہیں اپنی اساس میں
آفتاب اقبال شمیم