ٹیگ کے محفوظات: نوکر

خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 170
دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہُوں کافَر نہیں ہُوں میں
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟
لعل و زمرّد و زر و گوھر نہیں ہُوں میں
رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہُوں میں؟
کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے؟
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہُوں میں؟
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ@ کہتے تھے نوکر نہیں ہُوں میں
@ کچھ نسخوں میں ’جو‘، @ ’ مہر نے پانچویں۔ چھٹے اور ساتویں شعر کو نعتیہ اشعار میں شمار کیا ہے۔‘
مرزا اسد اللہ خان غالب

بے تیغ و تیر، شحنہ لشکر بھی ہو گئے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 256
ہم دل فگار آج دلاور بھی ہو گئے
بے تیغ و تیر، شحنہ لشکر بھی ہو گئے
پہلے بھی خودسری تو بہت تھی خمیر میں
اب کج کلاہیوں پہ مقرر بھی ہو گئے
آزادگی تو جا نہیں سکتی مزاج کی
میر سپاہ لے ترے نوکر بھی ہو گئے
یہ سب ولائے فاتح خیبر کا فیض ہے
ہم سر جھکا کے صاحب افسر بھی ہو گئے
ہم نے کہا نہ تھا کہ ہیں مشکل کشا علی
وہ معرکے جو بس کے نہ تھے سر بھی ہو گئے
اب کیا شکایت ستم دہر کیجیے
جتنے گلے تھے داخل دفتر بھی ہو گئے
نافذ ہوا وہی شہہ مرداں کا فیصلہ
دشمن کے دستخط سر محضر بھی ہو گئے
عرفان صدیقی