ٹیگ کے محفوظات: نوکری

تھی ورنہ جانے کب سے طبیعت بھری ہوئی

اچھا ہوا کہ بات بہت سرسری ہوئی
تھی ورنہ جانے کب سے طبیعت بھری ہوئی
پَل میں نکال پھینکنا دل کے مکین کو
ایسی تو آج تک نہ کوئی بے گھری ہوئی
اب انتظار کیجیے اگلی بہار کا
ہے شاخ کون سی جو خِزاں میں ہری ہوئی
رہتا ہے کارواں سے الگ میرِ کارواں
اے اہلِ کارواں یہ عجب رہبری ہوئی
ہر بار تم کو اُس کا کہا ماننا پڑے
باصرِؔ یہ دوستی تو نہیں نوکری ہوئی
باصر کاظمی

آپ کو نوکری مُبارک ہو

دشت کی سروری مُبارک ہو
آپ کو نوکری مُبارک ہو
خوف کھاویں گے اب تو دشمن بھی
سانپ سے دوستی مُبارک ہو
قافلہ آسماں سے گزرے گا
رہ نما! رہبری مُبارک ہو
یار! کیا دِل رُبا خبر دی ہے
خیر ہو! پیشگی مُبارک ہو
مشکلیں ٹل گئیں قرینے سے
المدد یا علیؑ مُبارک ہو
افتخار فلک

بس اک دیوار ہے اور بے دری ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 206
گماں کی اک پریشاں منظری ہے
بس اک دیوار ہے اور بے دری ہے
اگرچہ زہر ہے دنیا کی ہر بات
میں پی جاؤں اسی میں بہتری ہے
تُو اے بادِ خزاں اس گُل سے کہیو
کہ شاخ اُمید کی اب تک ہری ہے
گلی میں اس نگارِ ناشنو کی
فغاں کرنا ہماری نوکری ہے
کوئی لہکے خیابانِ صبا میں
یہاں تو آگ سینے میں بھری ہے
جون ایلیا

یہ وہ چراغ ہیں جو روشنی نہیں دیتے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 59
خوشی کی آسر دلا کے خوشی نہیں دیتے
یہ وہ چراغ ہیں جو روشنی نہیں دیتے
ذرا سی دھوپ کھلے کشتِ اس پر میں جیسے
یہ قہقہے بھی کچھ آسودگی نہیں دیتے
وہ مانگتے ہیں وہ اہلیتیں جو ہم میں نہیں
اسی لئے تو ہمیں نوکری نہیں دیتے
ہمیشہ رکھتے ہیں روشن ستارہ ایک نہ ایک
وہ میری شب کو بہت تیرگی نہیں دیتے
بنا تو سکتے ہیں ہم بھی زمیں پہ خلد مگر
یہ اختیار ہمیں آدمی نہیں دیتے
اسی لئے ہمیں مرنا پڑا، کہ اہلِ جفا
محبتوں میں رعایت کبھی نہیں دیتے
آفتاب اقبال شمیم

تجھ کو آوارہ نظرچاند کی لگ سکتی ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 630
رات کی جھیل سے علت کوئی لگ سکتی ہے
تجھ کو آوارہ نظرچاند کی لگ سکتی ہے
میں کوئی میز پہ رکھی ہوئی تصویر نہیں
دیکھئے بات مجھے بھی بری لگ سکتی ہے
ایک ہی رات پہ منسوخ نہیں ہو سکتا
یہ تعلق ہے یہاں عمر بھی لگ سکتی ہے
انگلیاں پھیر کے بالوں میں دکھائیں جس نے
اس سے لگتا ہے مری دوستی لگ سکتی ہے
آپ کی سانس میں آباد ہوں سانسیں میری
یہ دعا صرف مجھے آپ کی لگ سکتی ہے
یہ خبرمیرے مسیحا نے سنائی ہے مجھے
شہرِ جاناں میں تری نوکری لگ سکتی ہے
یہ کوئی گزری ہوئی رت کی دراڑیں سی ہیں
اس جگہ پر کوئی تصویر سی لگ سکتی ہے
پارک میں چشمِ بلاخیز بہت پھرتی ہیں
تجھ کو گولی کوئی بھٹکی ہوئی لگ سکتی ہے
ہے یہی کار محبت۔۔۔۔ سو لگا دے منصور
داؤ پہ تیری اگر زندگی لگ سکتی ہے
منصور آفاق

مگر اب احتجاج جاں فصیلِ آخری پر ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 614
تری تعمیر کی بنیاد اپنی بے گھری پر ہے
مگر اب احتجاج جاں فصیلِ آخری پر ہے
جسے حاصل کیا ہے تُو نے اپنی بیچ کر لاشیں
مرا تھو ایسی صدرِ مملکت کی نوکری پر ہے
فقط میری طرف سے ہی نہیں یہ پھولوں کا تحفہ
خدا کی لعنتِ پیہم بھی تیری قیصری پر ہے
جلوس اپنا ابھی نکلے گا کالی کالی قبروں سے
نظر اپنی بھی زر آباد کی خوش منظری پر ہے
قسم مجھ کو بدلتے موسموں کے سرخ رنگوں کی
ترا انجام اب لوگوں کی آشفتہ سری پر ہے
نظامِ زر !مجھے سونے کے برتن دے نہ تحفے میں
مرا ایمان تو خالی شکم کی بوزری پر ہے
زیادہ حیثیت رکھتی ہے پانی پت کی جنگوں سے
وہ اک تصویر بابر کی جو تزکِ بابری پر ہے
فرشتے منتظر ہیں بس سجا کر جنتیں اپنی
مرا اگلا پڑاؤ اب مریخ و مشتری پر ہے
وہ جو موج سبک سر ناچتی ہے میری سانسوں میں
سمندر کا تماشا بھی اسی بس جل پری پر ہے
اسے صرفِ نظر کرنے کی عادت ہی سہی لیکن
توقع، بزم میں اپنی مسلسل حاضری پر ہے
یقینا موڑ آئیں گے مرے کردار میں لیکن
ابھی تو دل کا افسانہ نگاہِ سرسری پر ہے
عجب تھیٹر لگا ہے عرسِ حوا پر کہ آدم کی
توجہ صرف اعضائے بدن کی شاعری پر ہے
وفا کے برف پروردہ زمانے یاد ہیں لیکن
یقیں منصور جذبوں کی دہکتی جنوری پر ہے
منصور آفاق

جی رہا ہوں مگر بے کسی کی طرح

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 148
آدمی میں بھی ہوں آدمی کی طرح
جی رہا ہوں مگر بے کسی کی طرح
ہر قدم پر لہو کا تعاقب کرے
موت وحشت زدہ اونٹنی کی طرح
چار اطراف میں زندگی کی تڑپ
جسم کی آخری جھر جھری کی طرح
صرف حیرت تھی آنکھوں میں پھیلی ہوئی
کوئی منظر تھا بے منظری کی طرح
آئینے میں کسی اور کو دیر تک
دیکھتا میں رہا اجنبی کی طرح
ایک تقریبِصبح مسلسل ہے تُو
اور میں محفلِ ملتوی کی طرح
وقت کے کینوس پہ ادھورا سا میں
ایک تصویر بنتی ہوئی کی طرح
سانولی دھوپ آنکھوں میں پھرتی رہے
شام کی ساعتِ سرمئی کی طرح
عمر بھر اک سٹیشن پہ چلتے رہے
تیراساماں اٹھاکر قلی کی طرح
مصرعے اگلی کلاسوں کے بنتا ہوا
خواب کا جامعہ شاعری کی طرح
عمر منصور اس کی گلی میں کٹی
عشق میں نے کیا نوکری کی طرح
منصور آفاق