ٹیگ کے محفوظات: نما

اپنا سایہ ہی جا بہ جا دیکھا

روپ نگری میں ہم نے کیا دیکھا؟
اپنا سایہ ہی جا بہ جا دیکھا
ہم نے گھبرا کے مُوند لیں آنکھیں
جب کوئی تارا ٹوٹتا دیکھا
لالہِ و گُل کی رُونمائی پر
بجلیوں کو چراغ پا دیکھا
اپنی پلکوں سے چُن لیا ہم نے
کوئی کانٹا اگر پڑا دیکھا
سچ کہو! میری یاد بھی آئی!
جب کبھی تم نے آئنہ دیکھا
شاخ پر، دل گرفتہ پھول ملے
آشیانہ قَفَس نما دیکھا
کہکشاں کے دیے بجھے پائے
چاندنی کو ملول سا دیکھا
اپنا حق بھی نہ ان سے مانگ سکے
کوئی ہم سا بھی کم نوا دیکھا!
رہ گزاروں نے آنکھ جب کھولی
زندگی کو بگولہ پا دیکھا
ماہ پاروں کے جھرمٹوں میں ، شکیبؔ
آج تم کو غزل سرا دیکھا
شکیب جلالی

میری جرأت نگہِ پیش نما رکھتی ہے

یادِ ایّام سے شکوہ نہ گلہ رکھتی ہے
میری جرأت نگہِ پیش نما رکھتی ہے
سطحی رنگ فسانوں کا ہے بہروپ حیات
دل کی گہرائی حقائق کو چُھپا رکھتی ہے
اس طرح گوش بر آواز ہیں اربابِ ستم
جیسے خاموشیِ مظلوم صدا رکھتی ہے
اپنی ہستی پہ نہیں خود ہی یقیں دنیا کو
یہ ہر اک بات میں ابہام رَوا رکھتی ہے
میری ہستی کہ رہینِ غمِ الفت ہے، شکیبؔ
دل میں اُٹھتے ہوئے شبہات دبا رکھتی ہے
شکیب جلالی

ہاتھ میں آئینہ نہیں ہوتا

ہم نے گر کچھ کَہَا نہیں ہوتا
ہاتھ میں آئینہ نہیں ہوتا
کیا یہاں سب خدا ہی بستے ہیں ؟
کیا یہاں وہ خدا نہیں ہوتا
گر نہ کرتا وہ خلق حُسنِ مجاز
کوئی قبلہ نُما نہیں ہوتا
موت سے بھی ذرا بنا کے رکھ
زندگی کا پتا نہیں ہوتا
شہر رہتا ہے عادتاً بے چین
جب کوئی حادثہ نہیں ہوتا
عکس ہیں لوگ یا ہیں ردِّ عمل
کوئی اچّھا بُرا نہیں ہوتا
گر تغیّر ہے لابدی ضامنؔ
آدمی کیوں بڑا نہیں ہوتا
ضامن جعفری

وہ جنگل کتنا گہرا تھا

پون ہری ، جنگل بھی ہرا تھا
وہ جنگل کتنا گہرا تھا
بوٹا بوٹا نور کا زینہ
سایا سایا راہ نما تھا
کونپل کونپل نور کی پتلی
ریشہ ریشہ رس کا بھرا تھا
خوشوں کے اندر خوشے تھے
پھول کے اندر پھول کھلا تھا
شاخیں تھیں یا محرابیں تھیں
پتا پتا دستِ دُعا تھا
گاتے پھول ، بلاتی شاخیں
پھل میٹھے ، جل بھی میٹھا تھا
جنت تو دیکھی نہیں لیکن
جنت کا نقشہ دیکھا تھا
ناصر کاظمی

کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے

اِن سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے
یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ پوچھتی ہیں
یہ خامشیٔ آواز نما کچھ کہتی ہے
سب اپنے گھروں میں لمبی تان کے سوتے ہیں
اَور دُور کہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے
جب صبح کو چڑیاں باری باری بولتی ہیں
کوئی نامانوس اُداس نوا کچھ کہتی ہے
جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں
کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا کچھ کہتی ہے
کبھی بھور بھئے کبھی شام پڑے کبھی رات گئے
ہر آن بدلتی رُت کی ہوا کچھ کہتی ہے
مہمان ہیں ہم مہمان سرا ہے یہ نگری
مہمانوں کو مہمان سرا کچھ کہتی ہے
بیدار رہو بیدار رہو بیدار رہو
اے ہم سفرو آوازِ درا کچھ کہتی ہے
ناصر آشوبِ زمانہ سے غافل نہ رہو
کچھ ہوتا ہے جب خلقِ خدا کچھ کہتی ہے
ناصر کاظمی

آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا

خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا
آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا
کیاریاں دُھول سے اَٹی پائیں
آشیانہ جلا ہوا دیکھا
فاختہ سرنگوں ببولوں میں
پھول کو پھول سے جدا دیکھا
اُس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا
عمر بھر جس کا راستا دیکھا
ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا
سنگ ریزہ جہاں پڑا دیکھا
کم نما ہم بھی ہیں مگر پیارے
کوئی تجھ سا نہ خود نما دیکھا
ناصر کاظمی

ہر اک سانس کو ہم صبا جانتے ہیں

قفس کو چمن سے سوا جانتے ہیں
ہر اک سانس کو ہم صبا جانتے ہیں
لہو رو کے سینچا ہے ہم نے چمن کو
ہر اک پھول کا ماجرا جانتے ہیں
جسے نغمۂ نے سمجھتی ہے دنیا
اُسے بھی ہم اپنی صدا جانتے ہیں
اشارہ کرے جو نئی زندگی کا
ہم اُس خودکشی کو روا جانتے ہیں
تری دُھن میں کوسوں سفر کرنے والے
تجھے سنگِ منزل نما جانتے ہیں
ناصر کاظمی

کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن

سازِ ہستی کی صدا غور سے سن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن
دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سن
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سن
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِ شام
روح کے تار ہلا غور سے سن
یاس کی چھاؤں میں سونے والے
جاگ اور شورِ درا غور سے سن
ہر نفس دامِ گرفتاری ہے
نو گرفتارِ بلا غور سے سن
دل تڑپ اُٹھتا ہے کیوں آخرِ شب
دو گھڑی کان لگا غور سے سن
اِسی منزل میں ہیں سب ہجر و وصال
رہروِ آبلہ پا غور سے سن!
اِسی گوشے میں ہیں سب دیر و حرم
دل صنم ہے کہ خدا غور سے سن
کعبہ سنسان ہے کیوں اے واعظ
ہاتھ کانوں سے اُٹھا غور سے سن
موت اور زیست کے اَسرار و رموز
آ مری بزم میں آ غور سے سن
کیا گزرتی ہے کسی کے دل پر
تو بھی اے جانِ وفا غور سے سن
کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال
شب گزیدوں کی دعا غور سے سن
ہے یہی ساعتِ ایجاب و قبول
صبح کی لے کو ذرا غور سے سن
کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں
کیا سناتی ہے صبا غور سے سن
برگِ آوارہ بھی اک مطرِب ہے
طائرِ نغمہ سرا غور سے سن
رنگ منّت کشِ آواز نہیں
گُل بھی ہے ایک نوا غور سے سُن
خامشی حاصلِ موسیقی ہے
نغمہ ہے نغمہ نما غور سے سن
آئنہ دیکھ کے حیران نہ ہو
نغمۂ آبِ صفا غور سے سن
عشق کو حسن سے خالی نہ سمجھ
نالۂ اہلِ وفا غور سے سن
دل سے ہر وقت کوئی کہتا ہے
میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سن
ہر قدم راہِ طلب میں ناصر
جرسِ دل کی صدا غور سے سن
ناصر کاظمی

میرا مطلب ہے جھوٹا خدا بچ گیا

اک خُدا مر گیا دوسرا بچ گیا
میرا مطلب ہے جھوٹا خدا بچ گیا
سات رنگوں سے بنتا رہا یہ جہاں
رنگ آخر میں صرف اک ہرا بچ گیا
بچ بچاؤ میں کچھ بھی نہیں بچ سکا
کارواں لُٹ گیا رہ نُما بچ گیا
میں مصیبت میں تھا دوستو! دشمنو!
نام مُرشد کا جونہی لیا، بچ گیا
میری تدفین میں دیر مت کیجیو!
میرے پیچھے مرا نقشِ پا بچ گیا
معجزہ یہ نہیں جان بخشی ہوئی
سچ تو یہ ہے ترا آسرا بچ گیا
افتخار فلک

ہاں سانس یہی خُدا نُما ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
یہ سانس عطّیۂ خُدا ہے
ہاں سانس یہی خُدا نُما ہے
قربت میں بھی فاصلہ ہے لازم
یہ راز اِک عمر میں کُھلا ہے
پِھرپنکھ کسی کے پھڑپھڑائے
ہاں گھونسلا پھر کوئی جلا ہے
ہونٹوں پِہ سجی ہے بات دل کی
غنچہ سرِ شاخ کِھل چلا ہے
آئی ہے تری گلی سے ہو کر
سرمست وگرنہ کیوں ہوا ہے
ماجِد یہ شریر موسمِ گلُ
تیری ہی طرح کا منچلا ہے
ماجد صدیقی

خدا بھی میرے اندر آ بسا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے
خدا بھی میرے اندر آ بسا ہے
وہ جس کی دید سے ہوں سیر آنکھیں
ثمر سے بھی زیادہ رَس بھرا ہے
نگاہوں میں چھپی نجمِ سحر سی
عجب بے نام سی طُرفہ حیا ہے
اسے دیکھو بہ حالِ لطف جب بھی
مثالِ مہ، پسِ باراں دھُلا ہے
کرے وہ گل نہ ایسا تو کرے کیا
سنا ہم نے بھی ہے وہ خود نما ہے
تعلّق اُس سے ماجدؔ کیا بتائیں
معانی سا جو لفظوں میں بسا ہے
ماجد صدیقی

دل گوشت ہے ناخن سے جدا ہو نہیں سکتا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 5
اس جنبشِ ابرو کا گلہ ہو نہیں سکتا
دل گوشت ہے ناخن سے جدا ہو نہیں سکتا
کچھ تو ہی اثر کر، ترے قربان خموشی!
نالوں سے تو کچھ کام مرا ہو نہیں سکتا
گر غیر بھی ہو وقفِ ستم تو ہے مسلم
کچھ تم سے بجز جور و جفا ہو نہیں سکتا
کھولے گرہِ دل کو ترا ناخنِ شمشیر
یہ کام اجل سے بھی روا ہو نہیں سکتا
سبقت ہو تجھے راہ میں اس کوچے کی مجھ پر
زنہار یہ اے راہ نما! ہو نہیں سکتا
میں نے جو کہا ہمدمِ اغیار نہ ہو جے
تو چیں بہ جبیں ہو کے کہا، ہو نہیں سکتا
یہ رازِ محبت ہے نہ افسانۂ بلبل
محرم ہو مری بادِ صبا، ہو نہیں سکتا
کب طالعِ خفتہ نے دیا خواب میں آنے
وعدہ بھی کیا وہ کہ وفا ہو نہیں سکتا
وہ مجھ سے خفا ہے تو اسے یہ بھی ہے زیبا
پر شیفتہ میں اس سے خفا ہو نہیں سکتا
مصطفٰی خان شیفتہ

داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 245
شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے
دل خوں شدۂ کشمکشِ حسرتِ دیدار
آئینہ بہ دستِ بتِ بدمستِ حنا ہے
شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگئ دل پہ جلا ہے
تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بصد ذوق
آئینہ بہ اند ازِ گل آغوش کشا ہے
قمری کفِ خا کستر و بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ! نشانِ جگرِ سو ختہ کیا ہے؟
خو نے تری افسردہ کیا وحشتِ دل کو
معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے
مجبوری و دعوائے گرفتارئ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے
معلوم ہوا حالِ شہیدانِ گزشتہ
تیغِ ستم آئینۂ تصویر نما ہے
اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب اِدھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگرِان کردہ گناہوں کی سزا ہے
بیگانگئِ خلق سے بیدل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا، تو مری جان، خدا ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 239
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے
ڈھونڈے ہے اس مغنّیِ آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے
مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادیِ خیال
تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے
کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہتِ گل سے حیا مجھے
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
مرزا اسد اللہ خان غالب

دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 217
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ خدا خدا کیجے
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہو گی
پہلے دل درد آشنا کیجے
عرضِ شوخی نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے
دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
نوٹ از مولانا مہر: یہ غزل مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہے لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 200
میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی
تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی
غیر کی مرگ کا غم کس لئے، اے غیرتِ ماہ!
ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہُوا، اور سہی
تم ہو بت، پھر تمھیں پندارِ خُدائی کیوں ہے؟
تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی
حُسن میں حُور سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کبھی
آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی
تیرے کوچے کا ہے مائل دلِ مضطر میرا
کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے، واعظ!
خلد بھی باغ ہے، خیر آب و ہوا اور سہی
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں، یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
مجھ کو وہ دو، کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی، آبِ بقا اور سہی
مجھ سے غالب یہ علائی نے غزل لکھوائی
ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 176
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانئِ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں
ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو ترے ہم مہرِ گیا کہتے ہیں
اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہَوا کہتے ہیں
دیکھیے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پہ ہم ’نامِ خدا‘ کہتے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالب آشفتہ نوا، کہتے ہیں
مرزا اسد اللہ خان غالب

اُور اس کے سواکچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 172
جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں
اُور اس کے سواکچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں
اک سرحدِ معدوم میں ہستی ہے ہماری
سازِ دل بشکستہ کی بیکار صدا ہیں
جس رخ پہ ہوں ہم، سجدہ اسی رخ پہ ہے واجب
گو قبلہ نہیں ہیں مگر اک قبلہ نما ہیں
مت ہوجیو اے سیلِ فنا ان سے مقابل
جانبازِ الم نقش بہ دامانِ بقا ہیں
پائ ہے جگہ ناصیۂ بادِ صبا پر
خاکستر پروانۂ جانبازِ فنا ہیں
ہر حال میں ہیں مرضئ صیّاد کے تابع
ہم طائرِ پر سوختہ رشتہ بہ پا ہیں
اے وہم طرازانِ مجازی و حقیقی
عشّاق فریبِ حق و باطل سے جدا ہیں
ہم بے خودئ شوق میں کرلیتے ہیں سجدے
یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں ناصیہ سا ہیں
اب منتظرِ شوقِ قیامت نہیں غالب
دنیا کے ہر ذرّے میں سو حشر بپا ہیں
نوٹ از مولانا مہر: یہ غزل مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہے لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

دے بطِ مے کو دل و دستِ شنا موجِ شراب

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 112
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
دے بطِ مے کو دل و دستِ شنا موجِ شراب
پوچھ مت وجہ سیہ مستئِ اربابِ چمن
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہَوا موجِ شراب
جو ہوا غرقۂ مے بختِ رسا رکھتا ہے
سر پہ گزرے پہ بھی ہے بالِ ہما موجِ شراب
ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر
موجِ ہستی کو کرے فیضِ ہوا موجِ شراب
چار موج اٹھتی ہے طوفانِ طرب سے ہر سو
موجِ گل، موجِ شفق، موجِ صبا، موجِ شراب
جس قدر روح نباتی ہے جگر تشنۂ ناز
دے ہے تسکیں بَدَمِ آبِ بقا موجِ شراب
بس کہ دوڑے ہے رگِ تاک میں خوں ہوہوکر
شہپرِ رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب
موجۂ گل سے چراغاں ہے گزرگاہِ خیال
ہے تصوّر میں ز بس جلوہ نما موجِ شراب
نشّے کے پردے میں ہے محوِ تماشائے دماغ
بس کہ رکھتی ہے سرِ نشو و نما موجِ شراب
ایک عالم پہ ہیں طوفانئِ کیفیّتِ فصل
موجۂ سبزۂ نوخیز سے تا موجِ شراب
شرحِ ہنگامۂ مستی ہے، زہے! موسمِ گل
رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے، خوشا موجِ شراب
ہوش اڑتے ہیں مرے، جلوۂ گل دیکھ، اسدؔ
پھر ہوا وقت، کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
مرزا اسد اللہ خان غالب

پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہوجاتا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 61
آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ
پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہوجاتا
کاش ناقدر نہ ہوتا ترا اندازِ خرام
میں غبارِ سرِ دامانِ فنا ہوجاتا
یک شبہ فرصتِ ہستی ہے اک آئینۂ غم
رنگِ گل کاش! گلستاں کی ہَـوا ہوجاتا
مستقل مرکزِ غم پہ ہی نہیں تھے ورنہ
ہم کو اندازہ ءِ آئینِ فنا ہو جاتا
دستِ قدرت ہے مرا خشت بہ دیوارِ فنا
گر فنا بھی نہ میں ہوتا تو فنا ہوجاتا
حیرت اندوزئ اربابِ حقیقت مت ہوچھ
جلوہ اک روز تو آئینہ نما ہوجاتا
نوٹ از مولانا مہر: یہ غزل مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہے لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے

دیوان پنجم غزل 1782
ترے بندے ہم ہیں خدا جانتا ہے
خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے
نہیں عشق کا درد لذت سے خالی
جسے ذوق ہے وہ مزہ جانتا ہے
ہمیشہ دل اپنا جو بے جا ہے اس بن
مرے قتل کو وہ بجا جانتا ہے
گہے زیر برقع گہے گیسوئوں میں
غرض خوب وہ منھ چھپا جانتا ہے
مجھے جانے ہے آپ سا ہی فریبی
دعا کو بھی میری دغا جانتا ہے
جفا اس پہ کرتا ہے حد سے زیادہ
جنھیں یار اہل وفا جانتا ہے
لگا لے ہے جھمکے دکھاکر اسی کو
جسے مغ بچہ پارسا جانتا ہے
اسے جب نہ تب ہم نے بگڑا ہی پایا
یہی اچھے منھ کو بنا جانتا ہے
بلا شور انگیز ہے چال اس کی
اسی طرز کو خوش نما جانتا ہے
نہ گرمی جلاتی تھی ایسی نہ سردی
مجھے یار جیسا جلا جانتا ہے
یہی ہے سزا چاہنے کی ہمارے
ہمیں کشتہ خوں کے سزا جانتا ہے
مرے دل میں رہتا ہے تو ہی تبھی تو
جو کچھ دل کا ہے مدعا جانتا ہے
پری اس کے سائے کو بھی لگ سکے نہ
وہ اس جنس کو کیا بلا جانتا ہے
جہاں میر عاشق ہوا خوار ہی تھا
یہ سودائی کب دل لگا جانتا ہے
میر تقی میر

ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں ہے

دیوان دوم غزل 1040
ہم مست ہو بھی دیکھا آخر مزہ نہیں ہے
ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں ہے
شوق وصال ہی میں جی کھپ گیا ہمارا
باآنکہ ایک دم وہ ہم سے جدا نہیں ہے
ہر صبح اٹھ کے تجھ سے مانگوں ہوں میں تجھی کو
تیرے سوائے میرا کچھ مدعا نہیں ہے
زیر فلک رکا ہے اب جی بہت ہمارا
اس بے فضا قفس میں مطلق ہوا نہیں ہے
آنکھیں ہماری دیکھیں لوگوں نے اشک افشاں
اب چاہ کا کسو کی پردہ رہا نہیں ہے
منھ جن نے میرا دیکھا ایک آہ دل سے کھینچی
اس درد عاشقی کی آیا دوا نہیں ہے
تھیں پیش از آشنائی کیا آشنا نگاہیں
اب آشنا ہوئے پر آنکھ آشنا نہیں ہے
کریے جو ابتدا تو تا حشر حال کہیے
عاشق کی گفتگو کو کچھ انتہا نہیں ہے
پردہ ہی ہم نے دیکھا چہرے پہ گاہ و بے گہ
اتنا بھی منھ چھپانا کچھ خوش نما نہیں ہے
میں روئوں تم ہنسو ہو کیا جانو میر صاحب
دل آپ کا کسو سے شاید لگا نہیں ہے
میر تقی میر

ایک عالم میں ہیں ہم وے پہ جدا رہتے ہیں

دیوان دوم غزل 895
اتفاق ایسا ہے کڑھتے ہی سدا رہتے ہیں
ایک عالم میں ہیں ہم وے پہ جدا رہتے ہیں
برسے تلوار کہ حائل ہو کوئی سیل بلا
پیش کچھ آئو ہم اس کوچے میں جا رہتے ہیں
کام آتا ہے میسر کسے ان ہونٹوں سے
بابت بوسہ ہیں پر سب کو چما رہتے ہیں
دشت میں گرد رہ اس کی اٹھے ہے جیدھر سے
وحش و طیر آنکھیں ادھر ہی کو لگا رہتے ہیں
کیا تری گرمی بازار کہیں خوبی کی
سینکڑوں آن کے یوسف سے بکا رہتے ہیں
بسترا خاک رہ اس کی تو ہے اپنا لیکن
گریۂ خونیں سے لوہو میں نہا رہتے ہیں
کیوں اڑاتے ہو بلایا ہمیں کب کب ہم آپ
جیسے گردان کبوتر یہیں آ رہتے ہیں
حق تلف کن ہیں بتاں یاد دلائوں کب تک
ہر سحر صحبت دوشیں کو بھلا رہتے ہیں
یاد میں اس کے قد و قامت دلکش کی میر
اپنے سر ایک قیامت نئی لا رہتے ہیں
میر تقی میر

وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ

دیوان اول غزل 421
ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ
آگ تھے ابتداے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
بود آدم نمود شبنم ہے
ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ
شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا
دل سے اپنے ہمیں گلہ ہے یہ
شور سے اپنے حشر ہے پردہ
یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ
بس ہوا ناز ہو چکا اغماض
ہر گھڑی ہم سے کیا ادا ہے یہ
نعشیں اٹھتی ہیں آج یاروں کی
آن بیٹھو تو خوش نما ہے یہ
دیکھ بے دم مجھے لگا کہنے
ہے تو مردہ سا پر بلا ہے یہ
میں تو چپ ہوں وہ ہونٹ چاٹے ہے
کیا کہوں ریجھنے کی جا ہے یہ
ہے رے بیگانگی کبھو ان نے
نہ کہا یہ کہ آشنا ہے یہ
تیغ پر ہاتھ دم بہ دم کب تک
اک لگا چک کہ مدعا ہے یہ
میر کو کیوں نہ مغتنم جانے
اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ
میر تقی میر

اب اک سخن ترے رنگِ حنا پہ لکھیں گے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 288
نہ موج خوں پہ، نہ تیغِ جفا پہ لکھیں گے
اب اک سخن ترے رنگِ حنا پہ لکھیں گے
ترا ہی ذکر کریں گے لبِ سکوت سے ہم
ترا ہی نام بیاضِ صدا پہ لکھیں گے
عبارتیں جو ستاروں پہ ہم کو لکھنا تھیں
تری جبینِ ستارہ نما پہ لکھیں گے
سفینہ ڈوب چکے گا تو روئدادِ سفر
کسی جزیرۂ بے آشنا پہ لکھیں گے
بیاں کریں گے نہ کوئی سبب اداسی کا
جو کچھ بھی لکھیں گے آب و ہوا پہ لکھیں گے
عرفان صدیقی

ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 238
زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخلِ دُعا نکل آئے
بڑی گھٹن ہے‘ چراغوں کا کیا خیال کروں
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے
خدا کرے صفِ سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے
عرفان صدیقی

پانی میں رنگ اس نے شفق کے ملا دیے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 645
میں نے ذرا جو دھوپ سے پردے اٹھا دیے
پانی میں رنگ اس نے شفق کے ملا دیے
پوچھی پسند یار کی میں نے فراق سے
آہستگی سے رات نے مجھ کو کہا، دیے
کہہ دو شبِ سیاہ سے لے آئے کالکیں
ہاتھوں پہ رکھ کے نکلی ہے خلقِ خدا دیے
ہر دل چراغ خانہ ہے ہر آنکھ آفتاب
کتنے بجھا سکے گی زمیں پر، ہوا، دیے
بڑھنے لگی تھی دھوپ مراسم کی آنکھ میں
دریا کے میں نے دونوں کنارے ملا دیے
بالوں میں میرے پھیر کے کچھ دیر انگلیاں
کیا نقش دل کی ریت پہ اس نے بنا دیے
بھادوں کی رات روتی ہے جب زلفِ یار میں
ہوتے ہیں میری قبر پہ نوحہ سرا دیے
کافی پڑی ہے رات ابھی انتظار کی
میرا یقین چاند، مرا حوصلہ دیے
اتنا تو سوچتے کہ دیا تک نہیں ہے پاس
مٹی میں کیسے قیمتی موتی گنوا دیے
کچھ پل ستم شعار کی گلیوں میں گھوم لے
عرصہ گزر گیا ہے کسی کو دعا دیے
میں نے بھی اپنے عشق کا اعلان کر دیا
فوٹو گراف شیلف پہ اس کے سجا دیے
منصور سو گئے ہیں اجالے بکھیر کر
گلیوں میں گھومتے ہوئے سورج نما دیے
منصور آفاق

ہمارے اور تمہارے خدا علیحدہ ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 379
یزید زاد الگ، کربلا علیحدہ ہیں
ہمارے اور تمہارے خدا علیحدہ ہیں
نمازِ جسم میں کعبہ کی سمت لازم ہے
نمازِ عشق کے قبلہ نما علیحدہ ہیں
مرے فراق کے جلتے ہوئے سیہ موسم
تمہی کہو مری جاں ! تم سے کیا علیحدہ ہیں
سمجھ رہی ہو محبت میں وصل کو تعبیر
ہمارے خواب میں کہتا نہ تھا، علیحدہ ہیں
ہماری دھج کو نظر بھر کے دیکھتے ہیں لوگ
ہجوم شہر میں ہم کج ادا علیحدہ ہیں
سیاہ بختی ٹپکتی ہے ایک تو چھت سے
ترے ستم مری جانِ وفا علیحدہ ہیں
منصور آفاق

لکھ کر بکھیرنی ہے وفا کی رپورتاژ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 257
اک راکھ کے بدن کو ہوا کی رپورتاژ
لکھ کر بکھیرنی ہے وفا کی رپورتاژ
میں کھڑکیوں سے صبح کی پہلی کرن کے ساتھ
پڑھتا ہوں روز باد صبا کی رپورتاژ
تشکیل کائنات کی رودادِ گم شدہ
ہو گی کہاں پہ لوحِ خدا کی رپورتاژ
شاید ہے مانگنے کی جبلت وجود میں
لمبی بہت ہے دستِ دعا کی رپورتاژ
تقسیم کیا کرو گے وسائل زمین کے
لکھتے رہو گے جرم و سزا کی رپورتاژ
لکھتے ہیں روز خونِ جگر کو نچوڑ کے
سورج کے ہاتھ شامِ فنا کی رپورتاژ
لاشوں بھری سرائے سے نکلے گی کب تلک
جانِ جہاں کے ناز و ادا کی رپورتاژ
پڑھتے بنام علم ہیں بچے سکول میں
بالِ ہما کے بختِ رسا کی رپورتاژ
شاید لبِ فرات لہو سے لکھی گئی
اس زندگی کی نشو و نما کی رپورتاژ
برسوں سے نیکیوں کا فرشتہ رقم کرے
منصور صرف آہ و بکا کی رپورتاژ
منصور آفاق

منزلیں دیں گی کسے اپنا پتا میرے بعد

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 157
کس طرف جائے گی اب راہ فنا میرے بعد
منزلیں دیں گی کسے اپنا پتا میرے بعد
رات کا دشت تھا کیا میرے لہو کا پیاسا
آسماں کتنا سحر پوش ہوا میرے بعد
یہ تو ہر طرح مرے جیسا دکھائی دے گا
کوزہ گر چاک پہ کیا تو نے رکھا میرے بعد
"کون پھر ہو گا حریفِ مے مرد افگنِ عشق؟”
کون دنیا کے لیے قبلہ نما میرے بعد
لڑکھڑاتی ہوئی گلیوں میں پھرے گی تقویم
وقت کا خاکہ اڑائے گی ہوا میرے بعد
میں خدا تو نہیں اس حسن مجسم کا مگر
کم نہیں میرا کیا اس نے گلہ میرے بعد
میں وہ سورج ہوں کہ بجھ کر بھی نظر آتا ہوں
اب نظر بند کرو میری ضیا میرے بعد
دشت میں آنکھ سمندر کو اٹھا لائی ہے
اب نہیں ہو گا کوئی آبلہ پا میرے بعد
تیرے کوچہ میں بھٹکتی ہی رہے گی شاید
سالہا سال تلک شام سیہ میرے بعد
گر پڑیں گے کسی پاتال سیہ میں جا کر
ایسا لگتا ہے مجھے ارض و سما میرے بعد
بعد از میر تھا میں میرِ سخن اے تشبیب
’کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد‘
رات ہوتی تھی تو مہتاب نکل آتا تھا
اس کے گھر جائے گا اب کون بھلا میرے بعد
رک نہ جائے یہ مرے کن کی کہانی مجھ پر
کون ہو سکتا ہے آفاق نما میرے بعد
بزم سجتی ہی نہیں اب کہیں اہلِ دل کی
صاحبِ حال ہوئے اہل جفا میرے بعد
پھر جہالت کے اندھیروں میں اتر جائے گی
سر پٹختی ہوئی یہ خلق خدا میرے بعد
پہلے تو ہوتا تھا میں اوس بھی برگِ گل بھی
ہونٹ رکھے گی کہاں باد صبا میرے بعد
مجھ سے پہلے تو کئی قیس کئی مجنوں تھے
خاک ہو جائے گا یہ دشتِ وفا میرے بعد
بس یہی درد لیے جاتا ہوں دل میں اپنے
وہ دکھائے گی کسے ناز و ادا میرے بعد
جانے والوں کو کوئی یاد کہاں رکھتا ہے
جا بھی سکتے ہیں کہیں پائے حنا میرے بعد
زندگی کرنے کا بس اتنا صلہ کافی ہے
جل اٹھے گا مری بستی میں دیا میرے بعد
اس کو صحرا سے نہیں میرے جنون سے کد تھی
دشت میں جا کے برستی ہے گھٹا میرے بعد
میرے ہوتے ہوئے یہ میری خوشامد ہو گی
شکریہ ! کرنا یہی بات ذرا میرے بعد
میں ہی موجود ہوا کرتا تھا اُس جانب بھی
وہ جو دروازہ کبھی وا نہ ہوا میرے بعد
میرا بھی سر تھا سرِ صحرا کسی نیزے پر
کیسا سجدہ تھا… ہوا پھر نہ ادا میرے بعد
کاٹنے والے کہاں ہو گی یہ تیری مسند
یہ مرا سرجو اگر بول پڑا میرے بعد
پہلے تو ہوتی تھی مجھ پر یہ مری بزم تمام
کون اب ہونے لگا نغمہ سرا میرے بعد
میں کوئی آخری آواز نہیں تھا لیکن
کتنا خاموش ہوا کوہ ندا میرے بعد
میں بھی کر لوں گا گریباں کو رفو دھاگے سے
زخم تیرا بھی نہیں ہو گا ہرا میرے بعد
تیری راتوں کے بدن ہائے گراں مایہ کو
کون پہنائے گا سونے کی قبا میرے بعد
شمع بجھتی ہے‘ تو کیا اب بھی دھواں اٹھتا ہے
کیسی ہے محفلِ آشفتہ سرا میرے بعد
میں ہی لایا تھا بڑے شوق میں برمنگھم سے
اس نے پہنا ہے جو ملبوس نیا میرے بعد
عشق رکھ آیا تھا کیا دار و رسن پر منصور
کوئی سجادہ نشیں ہی نہ ہوا میرے بعد
منصور آفاق

دشتِکُن میں چشمۂ حمد و ثنا احمد رضا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 33
صبح دم شہرِ مدنیہ کی ہوا احمد رضا
دشتِکُن میں چشمۂ حمد و ثنا احمد رضا
حمد کی بہتی کرن وہ نعت کی اجلی شعاع
مدحتوں کے باغ کی بادِصبا احمد رضا
زندہ و جاوید رکھتا ہے انہیں عشقِ رسول
عشق کی بابت فنا نا آشنا احمد رضا
یہ سرِ فہرست عشاقِ محمدمیں ہے کون ؟
پوچھنے والے نے پھر خود ہی کہا احمد رضا
خانہ ء تاریک میں بھر دے اجالے لفظ سے
فیض کا سر چشمۂ صدق و صفا احمد رضا
کنزالایماں سے منور صحنِ اردو ہو گیا
آیتوں کا اختتامِ ترجمہ احمد رضا
روک دیتے ہیں بہارِ حکمت و عرفان سے
بد عقیدہ موسموں کا سلسلہ احمد رضا
آسماں کی بے کراں چھاتی پہ روز حشر تک
صبح نے کرنوں سے اپنی، لکھ دیا، احمد رضا
جل اٹھے ان سے سبھی علمِ عقائد کے چراغ
راستی کا روشنی کا راستہ احمد رضا
صاحبِ علم الکلام و حاملِ علم شعور
حاصلِ عہد علومِ فلسفہ احمد رضا
عالمِ علم لدنی ، عاملِ تسخیرِ ذات
روح و جاں میں قربِ احساسِ خدا احمد رضا
وہ صفاتِ حرف کی رو سے مخارج کے امیں
محرمِ احکامِ تجوید و نوا احمد رضا
بابتِ تفسیر قرآں جانتے تھے ایک ایک
معنی و تفہیمِ الہامِ الہ احمد رضا
وہ روایت اور درایت آشنا شیخ الحدیث
علمِ احوالِ نبی کے نابغہ احمد رضا
مالکی وشافعی ہوں یا کہ حنفی حنبلی
فقہ اربعہ پہ حرف انتہا احمد رضا
علمِ استخراجیہ ہویا کہ استقرائیہ
دیدہ ء منطق میں ہے چہرہ نما احمد رضا
علم ہندسہ و ریاضی کے نئے ادوار میں
موئے اقلیدس کی اشکال و ادا احمد رضا
علم جامع و جفر کی ہر ریاضت گاہ میں
جو ہرِ اعداد کی صوت و صدا احمد رضا
وہ بروج فلکیہ میں انتقال شمس ہیں
صاحبِعلمِ نجوم و زائچہ احمد رضا
وقت کی تاریخ ان کے ہاتھ پر تحریر ہے
جانتے ہیں سرگزشتِ ماجرا احمد رضا
روشنی علمِ تصوف کی انہی کی ذات سے
کثرتِ جاں میں لبِ وحدت سرا احمد رضا
حرفِ آخر تھے وہی عربی ادب پر ہند میں
والی ء تختِ علوم عربیہ احمد رضا
علمِ جاں ، علمِ فضائلِ علمِ لغت ،علم سیر
در علومِ خیرتجسیمِ ضیا احمد رضا
آسمانِ معرفت ، علمِ سلوک وکشف میں
منظرِبدرالدجیٰ ، شمس الضحیٰ احمد رضا
صبحِ عرفانِ الہی ، عابد شب زندہ دار
مسجدِ یاد خدا و مصطفی احمد رضا
عجز کا پندار ہے میرے قلم کی آنکھ میں
جو کچھ لکھا میں نے، کہیں اُس سے سوا احمد رضا
ٹوٹے پھوٹے لفظ تیری بارگاہ میں پیش ہیں
گرقبول افتدزہے عزوعطا احمد رضا
اعلی حضرت اہلِ سنت کے امام و پیشوا
اک نگہ مجھ پہ کرم کی اک نگہ احمد رضا
منصور آفاق

انے نقش کف پا کیا دیکھیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 119
زندگی دل کا سکوں چاہتی ہے
رونق شہر سبا کیا دیکھیں
کھوکھلے قہقہے پھیکی باتیں
زیست کو زیست نما کیا دیکھیں
زخم آواز ہی آئینہ ہے
صورت نغمہ سرا کیا دیکھیں
قہر دریا کا تقاضا معلوم
ہم حبابوں کے سوا کیا دیکھیں
سانس کلیوں کا رکا جاتا ہے
شوخی موج صبا کیا دیکھیں
دل ہے دیوار، نظر ہے پردہ
دیکھنے والے بھلا کیا دیکھیں
ایک عالم ہے غبار آلودہ
جانے والے کی ادا کیا دیکھیں
زندگی بھاگ رہی ہے باقیؔ
شوق کو آبلہ پا کیا دیکھیں
باقی صدیقی