ٹیگ کے محفوظات: نماز

رَواجِ سجدہ ہُوا ہے نمازِ عِشق کے بَعد

ہے نازِ حُسن سے پہلے نیازِ عِشق کے بَعد
رَواجِ سجدہ ہُوا ہے نمازِ عِشق کے بَعد
نہ رازِ حُسن کُھلا ہے نہ رازِ حُسنِ نَظَر
اَگَر کُھلے تَو کُھلیں گے یہ رازِ عِشق کے بَعد
نہ جانے حُسن کو اِس کی خَبَر بھی ہے کہ نہیں
جنوں کی آتی ہے مَنزِل فَرازِ عِشق کے بَعد
طَبیِب و حَضرَتِ ناصح، مَسِیحا و ہَمدَم
رَہے ضروری نہ تجھ کارسازِ عِشق کے بَعد
مِزاجِ حُسن کے ضامنؔ یہ کہتے آئے ہیں
یہ راس آتا ہے سوز و گُدازِ عِشق کے بَعد
ضامن جعفری

آئینے ٹوٹ جاتے ہیں آئینہ ساز سے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 120
شکوہ شکستِ دل کا ہو کیا دستِ ناز سے
آئینے ٹوٹ جاتے ہیں آئینہ ساز سے
اب التماسِ دید کروں تو گناہ گار
واقف میں ہو گیا ترے پردے کے راز سے
ہر شے انہیں کی شکل میں آنے لگی نظر
شاید گزر گیا میں حدِ امتیاز سے
خود آئیں پوچھنے وہ مرے پاس حالِ دل
کچھ دور تو نہیں ہے مرے کار ساز سے
اے شیخ مے کدے سے نکل دیکھ بال کے
واپس نہ آ رہے ہوں نمازی نماز سے
اللہ ان کو عشق کی کیونکر خبر ہوتی
واقف نہ تھا کوئی بھی مرے دل کے راز سے
بھیدی ہوں گھر کا مجھ سے نہ چل چال اے فلک
واقف قمر ہے خوب تری سازباز سے
قمر جلالوی

ناچار ہوں کہ حکم نہیں کشفِ راز کا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 9
کچھ امتیاز مجھ کو نہ مے کا نہ سارکا
ناچار ہوں کہ حکم نہیں کشفِ راز کا
لگتی نہیں پلک سے پلک جو تمام شب
ہے ایک شعبدہ مژہِ نیم باز کا
دشمن پئے صبوح جگاتے ہیں یار کو
یہ وقت ہے نسیمِ سحر اھتزاز کا
ایمن ہیں اہلِ جذبہ کہ رہبر ہے ان کے ساتھ
سالک کو ہے خیال نشیب و فراز کا
پھنسنے کے بعد بھی ہے وہی دل شگفتگی
کیا خوب جال ہے نگہِ جاں نواز کا
تقویٰ مرا شعار ہے ، عصمت سرشتِ دوست
پھر مجھ سے کون سا ہے سبب احتراز کا
بارے عجیب بات تو پھیلی جہان میں
پایا کسی نے گو ثمر افشائے راز کا
ساقی کے ہیں اگر یہی الطاف، کیا عجب
ارض و سما میں ہوش نہ ہو امتیاز کا
پیرِ مغاں نے رات کو وہ کچھ دکھا دیا
ہرگز رہا نہ دھیان بھی حسنِ مجاز کا
دیتا ہے داغِ رشک پرندِ سپہر کو
جلوہ تمہاری معجزِ گوہر طراز کا
پانی وضو کو لاؤ، رخِ شمع زرد ہے
مینا اٹھاؤ وقت اب آیا نماز کا
یکتا کسی کو ہم نے نہ دیکھا جہان میں
طولِ امل جواب ہے زلفِ دراز کا
جورِ اجل کو شوخیِ بے جا کہا کیا
تھا مست شیفتہ جو کسی مستِ ناز کا
مصطفٰی خان شیفتہ

ناز والے نیاز کیا جانیں

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 35
ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں
کب کسی در کی جُبّہ سائی کی
شیخ صاحب نماز کیا جانیں
جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں
پوچھئے مے کشوں سے لطفِ شراب
یہ مزہ پاک باز کیا جانیں
حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں
لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں
جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں
داغ دہلوی

کرنا سلوک خوب ہے اہل نیاز سے

دیوان ششم غزل 1898
آئو کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے
کرنا سلوک خوب ہے اہل نیاز سے
پھرتے ہو کیا درختوں کے سائے میں دور دور
کرلو موافقت کسو بے برگ و ساز سے
ہجراں میں اس کے زندگی کرنا بھلا نہ تھا
کوتاہی جو نہ ہووے یہ عمر دراز سے
مانند سبحہ عقدے نہ دل کے کبھو کھلے
جی اپنا کیونکے اچٹے نہ روزے نماز سے
کرتا ہے چھید چھید ہمارا جگر تمام
وہ دیکھنا ترا مژئہ نیم باز سے
دل پر ہو اختیار تو ہرگز نہ کریے عشق
پرہیز کریے اس مرض جاں گداز سے
آگے بچھا کے نطع کو لاتے تھے تیغ و طشت
کرتے تھے یعنی خون تو اک امتیاز سے
مانع ہوں کیونکے گریۂ خونیں کے عشق میں
ہے ربط خاص چشم کو افشاے راز سے
شاید شراب خانے میں شب کو رہے تھے میر
کھیلے تھا ایک مغبچہ مہر نماز سے
میر تقی میر

بے وقر جانتے ہیں دل بے گداز کو

دیوان سوم غزل 1224
کرنا شعار خوب ہے عجز و نیاز کو
بے وقر جانتے ہیں دل بے گداز کو
ہجراں کی سرگذشت مری گفتنی نہیں
کیا کہیے تم سے قصۂ دور و دراز کو
جوں شمع سر کٹے ہے بیاں حال کا کیے
لانا زباں پہ خوب نہیں دل کے راز کو
حیران ہو رہو گے جو ہم ہو چکے کبھی
دیکھا نہیں ہے مرتے کسو عشق باز کو
جانکاہ و دل خراش ہیں سارے ترے سلوک
دل ہم تو دیتے کاش کسو دل نواز کو
صوفی کی پارسائی کی ہے خانقہ میں دھوم
لے چلیے گا کبھو ادھر اس مست ناز کو
ہے دور ادب سے تم کھڑے میں پاکشیدہ ہوں
مت آئیو جنازے کی میرے نماز کو
میر تقی میر

گفتار اس کی کبر سے رفتار ناز سے

دیوان دوم غزل 977
کرتا ہے کب سلوک وہ اہل نیاز سے
گفتار اس کی کبر سے رفتار ناز سے
یوں کب ہمارے آنسو پچھیں ہیں کہ تونے شوخ
دیکھا کبھو ادھر مژئہ نیم باز سے
خاموش رہ سکے نہ تو بڑھ کر بھی کچھ نہ کہہ
سر شمع کا کٹے ہے زبان دراز سے
اب جا کسو درخت کے سائے میں بیٹھیے
اس طور پھریے کب تئیں بے برگ و ساز سے
یہ کیا کہ دشمنوں میں مجھے ساننے لگے
کرتے کسو کو ذبح بھی تو امتیاز سے
مانند شمع ٹپکے ہی پڑتے ہیں اب تو اشک
کچھ جلتے جلتے ہو گئے ہیں ہم گداز سے
شاید کہ آج رات کو تھے میکدے میں میر
کھیلے تھا ایک مغبچہ مہر نماز سے
میر تقی میر

ہے فرض عین رونا دل کا گداز واجب

دیوان دوم غزل 773
عشاق کے تئیں ہے عجز و نیاز واجب
ہے فرض عین رونا دل کا گداز واجب
یوں سرفرو نہ لاوے ناداں کوئی وگرنہ
رہنا سجود میں ہے جیسے نماز واجب
ناسازی طبیعت ایسی پھر اس کے اوپر
ہے ہر کسو سے مجھ کو ناچار ساز واجب
لڑکا نہیں رہا تو جو کم تمیز ہووے
عشق و ہوس میں اب ہے کچھ امتیاز واجب
صرفہ نہیں ہے مطلق جان عزیز کا بھی
اے میر تجھ سے ظالم ہے احتراز واجب
میر تقی میر

کوئی خاک سے ہو یکساں وہی ان کو ناز کرنا

دیوان دوم غزل 690
یہ روش ہے دلبروں کی نہ کسو سے ساز کرنا
کوئی خاک سے ہو یکساں وہی ان کو ناز کرنا
کوئی عاشقوں بتاں کی کرے نقل کیا معیشت
انھیں ناز کرتے رہنا انھیں جی نیاز کرنا
رہیں بند میری آنکھیں شب و روز ضعف ہی میں
نہ ہوا مجھے میسر کبھو چشم باز کرنا
یہ بھی طرفہ ماجرا ہے کہ اسی کو چاہتا ہوں
مجھے چاہیے ہے جس سے بہت احتراز کرنا
نہیں کچھ رہا تو لڑکا تجھے پر ضرور ہے اب
ہوس اور عاشقی میں ٹک اک امتیاز کرنا
کوئی عاشقوں کی پھپٹ کنھوں نے اٹھائی بھی ہے
انھیں بات ہو جو تھوڑی اسے بھی دراز کرنا
یہی میر کھینچے قشقہ در دیر پر تھے ساجد
نہیں اعتماد قابل انھوں کا نماز کرنا
میر تقی میر

کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو

دیوان اول غزل 401
جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو
کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو
نہ دیکھو غنچۂ نرگس کی اور کھلتے میں
جو دیکھو اس کی مژہ نیم باز کرنے کو
نہ سوئے نیند بھر اس تنگنا میں تا نہ موئے
کہ آہ جا نہ تھی پا کے دراز کرنے کو
جو بے دماغی یہی ہے تو بن چکی اپنی
دماغ چاہیے ہر اک سے ساز کرنے کو
وہ گرم ناز ہو تو خلق پر ترحم کر
پکارے آپ اجل احتراز کرنے کو
جو آنسو آویں تو پی جا کہ تا رہے پردہ
بلا ہے چشم تر افشاے راز کرنے کو
سمند ناز سے تیرے بہت ہے عرصہ تنگ
تنک تو ترک کر اس ترک تاز کرنے کو
بسان زر ہے مرا جسم زار سارا زرد
اثر تمام ہے دل کے گداز کرنے کو
ہنوز لڑکے ہو تم قدر میری کیا جانو
شعور چاہیے ہے امتیاز کرنے کو
اگرچہ گل بھی نمود اس کے رنگ کرتا ہے
ولیک چاہیے ہے منھ بھی ناز کرنے کو
زیادہ حد سے تھی تابوت میر پر کثرت
ہوا نہ وقت مساعد نماز کرنے کو
میر تقی میر

معشوق کا ہے حسن اگر دل نواز ہو

دیوان اول غزل 389
خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز و ناز ہو
معشوق کا ہے حسن اگر دل نواز ہو
سجدے کا کیا مضائقہ محراب تیغ میں
پر یہ تو ہو کہ نعش پہ میری نماز ہو
اک دم تو ہم میں تیغ کو تو بے دریغ کھینچ
تا عشق میں ہوس میں تنک امتیاز ہو
نزدیک سوز سینہ سے رکھ اپنے قلب کو
وہ دل ہی کیمیا ہے جو گرم گداز ہو
ہے فرق ہی میں خیر نہ کر آرزوے وصل
مل بیٹھیے جو اس سے تو شکوہ دراز ہو
جوں توں کے اس کی چاہ کا پردہ کیا ہے میں
اے چشم گریہ ناک نہ افشاے راز ہو
جوں چشم بسملی نہ مندی آوے گی نظر
جو آنکھ میرے خونی کے چہرے پہ باز ہو
ہم سے تو غیرعجز کبھو کچھ بنا نہ میر
خوش حال وہ فقیر کہ جو بے نیاز ہو
میر تقی میر

کافروں کی نماز ہوجائے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 7
ہر حقیقت مجاز ہوجائے
کافروں کی نماز ہوجائے
دل رہین نیاز ہوجائے
بے کسی کارساز ہوجائے
جنت چارہ ساز کون کرے؟
درد جب جاں نواز ہوجائے
عشق دل میں رہے تو رسوا ہو
لب پہ آئے تو راز ہوجائے
لطف کا انتظار کرتا ہوں
جور تا حد ناز ہوجائے
عمر بے سود کٹ رہی ہے فیض
کاش افشائے راز ہوجائے
فیض احمد فیض

عشق منت کش فسون نیاز

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 1
حسن مرہون جوش بادۂ ناز
عشق منت کش فسون نیاز
دل کا ہر تار لرزش پیہم
جاں کا ہر رشتہ وقف سوز و گداز
سوزش درد ددل کسے معلوم
کون جانے کسی کے عشق کا راز
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گمشدہ آواز
ہوچکا عشق! اب ہوس ہی سہی
کیا کریں فرض ہے ادائے نماز
تو ہے اور اک تغافل پیہم
میں ہوں اور انتظار بے انداز
خوف ناکامیٔ امید ہے فیض
ورنہ دل توڑدے طلسم مجاز
فیض احمد فیض

جسے ہے ترکِ مراسم پہ اعتراض ۔وہی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 496
یہ کیا کہ ہجر کا موسم کرے دراز وہی
جسے ہے ترکِ مراسم پہ اعتراض ۔وہی
جسے فراق کی راتیں گزار لیتی ہیں
وصالِ صبح سے ہوتا ہے سرفراز وہی
میں چھوڑآیاتھا جس کوکسی کے چہرے میں
دکھارہا ہے کوئی چشمِ بدلحاظ وہی
میں جانتا ہوں اب ہارنا ضروری ہے
میں مانتا ہوں کہ ہے جنگ کا محاذوہی
جسے پسندنہیں تھی اداس رت کی غزل
سرھانے رکھتی اب کیوں مری بیاض وہی
وہی خیال کی مسجد وہی حریمِ حرم
مرا وضو وہی ، سجدہ وہی ، نماز وہی
جسے ملی تیرے رخسار و لب کی گیرائی
ہوا خدائی سے منصور بے نیاز وہی
منصور آفاق

جاں لباس مجاز میں رکھ دی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 451
بس کسی اعتراض میں رکھ دی
جاں لباس مجاز میں رکھ دی
رات کھولے تھے کچھ پرانے خط
پھر محبت دراز میں رکھ دی
یادِ یاراں نے پھر وہ چنگاری
ایک مردہ محاذ میں رکھ دی
یوں تو سب کچھ کہا مگر اس نے
راز کی بات راز میں رکھ دی
تان لی تھی رقیب پر بندوق
ربطِ جاں کے لحاظ میں رکھ دی
کس نے تیرے خیال کی دھڑکن
دست طبلہ نواز میں رکھ دی
شرٹ ہینگر پہ ٹانک دی میں نے
اور لڑکی بیاض میں رکھ دی
اس نے پستی گناہ کی لیکن
ساعتِ سرفراز میں رکھ دی
مرنے والا نشے میں لگتا تھا
کیسی مستی نماز میں رکھ دی
رات آتش فشاں پہاڑوں کی
اپنے سوز و گداز میں رکھ دی
کس نے سورج مثال تنہائی
میری چشم نیاز میں رکھ دی
داستاں اور اک نئی اس نے
میرے غم کے جواز میں رکھ دی
مسجدوں میں دھمال پڑتی ہے
کیفیت ایسی ساز میں رکھ دی
پھر ترے شاعرِ عجم نے کوئی
نظم صحنِ عکاظ میں رکھ دی
کس نے پہچان حسن کی منصور
دیدۂ عشق باز میں رکھ دی
منصور آفاق

کس توجہ سے پڑھ رہا ہے نماز

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 33
شیخ! اللہ رے تیری عیاری
کس توجہ سے پڑھ رہا ہے نماز
خیر ہے اے فلک کہ چار طرف
چل رہی ہیں ہوائیں کچھ ناساز
رنگ بدلا ہوا ہے عالم کا
ہیں دگرگوں زمانہ کے انداز
چھپتے پھرتے ہیں کبکو تیہو سے
گھونسلوں میں عقاب اور شہباز
ہے نہتوں کو رہگزر میں خطر
رہزنوں نے کئے ہیں ہاتھ دراز
ٹڈیوں کا ہے کھیتوں پہ ہجوم
بھیڑیوں کے ہیں خوں میں تر لب آز
نا توانوں پہ گد ہیں منڈلاتے
کھئلوں پر ہیں حیز تیر انداز
تشنۂ خوں میں بھوکے شیروں کے
حیلہ گر رہوں بہو کے عشوۂ ناز
دشمنوں کے ہیں دوست خود جاسوس
اور یاروں کے یار میں غماز
ہو گا انجام دیکھئے کیا کچھ
ہے پر آشوب جب کہ یہ آغاز
کے ابھی تک کھلی نہیں لیکن
عیب سے آ رہی ہے کچھ آوا ز
وقت نازک ہے اپنے بیڑے پر
موج ہائل ہے اور ہوا ناساز
یا تھپیڑے ہوا کے لے ابھرا
یا گیا کشمکش میں ڈوب جہاز
الطاف حسین حالی