ٹیگ کے محفوظات: نقشہ

سمجھتی ہے یہ نکتہ ساری دُنیا، ہم نہیں کہتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
تمہارے خُلق میں فتنے ہیں کیا کیا، ہم نہیں کہتے
سمجھتی ہے یہ نکتہ ساری دُنیا، ہم نہیں کہتے
ہوئے ہیں زرد پتے لفظ کیا کیا کچھ، نہ وعدوں کے
تمہاری شاخِ لب کا ہے یہ خاصا، ہم نہیں کہتے
نہیں زیبا بڑوں کو کاٹنا ڈوریں پتنگوں کی
چھتوں پر ہے، مگر ایسا ہی نقشہ، ہم نہیں کہتے
نظر آتا ہے، چھّتا خیر کا لپٹا ہوا شر میں
کہو کیسا ہے یہ طُرفہ تماشا، ہم نہیں کہتے
کسی غنچے کو بھی، مہلت ملے ہرگز نہ کھلنے کی
وطیرہ ہے یہ ماجدؔ، حبسِ شب کا، ہم نہیں کہتے
ماجد صدیقی

سامنے اپنے ٹھہرتا دلربا نقشہ کوئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
کاش در آتا ہمیں ایسا بھی اِک لمحہ کوئی
سامنے اپنے ٹھہرتا دلربا نقشہ کوئی
ایک مدّت سے یہی نسبت ہے فرشِ خاک سے
ڈولتا جس طرح سطحِ آب پر تختہ کوئی
چاہتوں سے یہ روایت بھی کبھی کی چھن چکی
بام پر بیٹھا نہیں کرتا ہے اب کّوا کوئی
زندگی کر دے گی پیدا پھر کوئی رستے کا سانپ
سامنے آیا بھی اِس لُڈّو کا گر زینہ کوئی
ہو کے رہ جاتا ہوں کیوں غرقِ تہِ پاتال میں
جب کبھی جھڑتا ہے نکھری شاخ سے پتّا کوئی
ہم ہیں اور ماجدؔ تمّنا کا طلسمی غار ہے
ظاہراً باہر نکلنے کا نہیں رستہ کوئی
ماجد صدیقی

رُک گیا ہے وہی رستہ میرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 79
تھا جو مشکل کا مداوا میرا
رُک گیا ہے وہی رستہ میرا
جُرعہِ غم ہے مجھے جُرعۂ مے
ٹوٹتا ہی نہیں نشّہ میرا
خُوب سُلگائی دبی آگ مری
حال پوچھا ہے یہ اچّھا میرا
خشک پتّوں سا وہ بچھڑا مجھ سے
دیکھ کر رنگ بدلتا میرا
عرش اور فرش ملے ہیں باہم
ہے عجب گھر کا یہ نقشہ میرا
مُسکراہٹ مرا غازہ ہی نہ ہو
دیکھئے غور سے چہرہ میرا
ایک باطن بھی ہے ہر ظاہر کا
کیجئے یوں نہ تماشا میرا
دفعتاً جیسے خُدا بن بیٹھا
دیکھ کر ہاتھ وہ پھیلا میرا
امتحاں میں مرے پرچے خالی
اور بڑا سب سے ہے بستہ میرا
چور جو دل میں چُھپا تھا ماجدؔ
کر گیا ہے وہ صفایا میرا
ماجد صدیقی

تری مہندی تو سلامت ہے تو کیا کیا ہو نہیں سکتا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 9
یہ تو نے کیا کہا خونِ تمنا ہو نہیں سکتا
تری مہندی تو سلامت ہے تو کیا کیا ہو نہیں سکتا
پڑھے گر لاکھ ماہِ چرخ تم سا ہو نہیں سکتا
یہ صورت ہو نہیں سکتی یہ نقشہ ہو نہیں سکتا
کروں سجدے میں اے بت مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا
خدا تو ہو نہیں سکتا میں بندہ ہو نہیں سکتا
قفس سے چھوٹ کر صیاد جائیں تو کیا جائیں
ہمیں تو آشیاں بھی اب مہیا ہو نہیں سکتا
گناہ گاروں کا مجمع سب سے آگے ہو گا اے واعظ
تجھے دیدار بھی پہلے خدا کا ہو نہیں سکتا
نہ دینا آشیاں کو آگ ورنہ جان دے دیں گے
ہمارے سامنے صیاد ایسا ہو نہیں سکتا
انہیں پر منحصر کیا آزما بیٹھے زمانے کو
قمر سچ تو یہ ہے کوئی کسی کا ہو نہیں سکتا
قمر جلالوی

اسے کہنا بغیر اس کے مری دنیا مکمل ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 619
میں خود پہلو میں ہوں اپنے بدن اپنا مکمل ہے
اسے کہنا بغیر اس کے مری دنیا مکمل ہے
گلی کی برف پر کھنچیں لکیریں بے خیالی میں
ادھورے نقش ہیں کچھ کچھ مگر چہرہ مکمل ہے
مجھے روکا ہوا ہے جسم کی دہلیز پر اس نے
ادھوری ہے وفا اپنی، تعلق نامکمل ہے
لکیر اپنے لہو کی ہے ابھی اِن دونوں ٹکڑوں میں
خزانے تک پہنچنے کا کہاں نقشہ مکمل ہے
مجھے شہر نگاراں سے نئے کچھ زخم لینے ہیں
وہ جو دل میں رفو کا کام نکلا تھا مکمل ہے
بلا کا خوبصورت ہے کوئی اُس بالکونی میں
ہے بے مفہوم سا مکھڑا مگر کتنا مکمل ہے
محبت کا سفر بھی کیا کرشمہ ساز ہے منصور
ادھر منزل نہیں آئی ادھر رستہ مکمل ہے
منصور آفاق

جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 261
دل کے ہر داغ کو غنچہ کہیے
جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے
جذب دل کے کوئی معنی نہ رہے
کس سے عجز لب گویا کہیے
کوئی آواز بھی آواز نہیں
دل کو اب دل کی تمنا کہیے
اتنا آباد کہ ہم شور میں گم
اتنا سنسان کہ صحرا کہیے
ہے حقیقت کی حقیقت دنیا
اور تماشے کا تماشا کہیے
لوگ چلتی ہوئی تصویریں ہیں
شہر کو شہر کا نقشہ کہیے
خون دل حاصل نظارہ ہے
نگہ شوق کو پردا کہیے
شاخ جب کوئی چمن میں ٹوٹے
اسے انداز صبا کا کہیے
دیدہ ور کون ہے ایسا باقیؔ
چشم نرگس کو بھی بینا کہیے
باقی صدیقی

دنیا بقدر خون تمنا ہے سامنے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 224
قطرہ ہے سامنے کہیں دریا ہے سامنے
دنیا بقدر خون تمنا ہے سامنے
اک آن میں حیات بدلتی ہے اپنا رنگ
اک دور کی طرح کوئی آتا ہے سامنے
آنکھوں میں ہے کھچی ہوئی تصویر خون دل
ہم دیکھتے نہیں وہ تماشا ہے سامنے
ہم ڈھونڈنے لگے کوئی دل عافیت مقام
ہر چند تیرے شہر کا نقشہ ہے سامنے
اٹھیں تو راستہ نہ دے بیٹھیں تو بار ہو
کچھ اس طرح اک آدمی بیٹھا ہے سامنے
جوش جنوں سے ربط وہ باقیؔ نہیں مگر
کیا دل کا اعتبار کہ صحرا ہے سامنے
باقی صدیقی

یہی رستہ تھا صبا کا پہلے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 217
سفر گل کا پتا تھا پہلے
یہی رستہ تھا صبا کا پہلے
کبھی گل سے،کبھی بوئے گل سے
کچھ پتا ملتا تھا اپنا پہلے
زندگی آپ نشاں تھی اپنا
تھا نہ رنگین یہ پردا پہلے
اس طرح روح کے سناٹے سے
کبھی گزرے تھے نہ تنہا پہلے
اب تو ہر موڑ پہ کھو جاتے ہیں
یاد تھا شہر کا نقشہ پہلے
لوگ آباد تو ہوتے تھے مگر
اس قدر شور کہاں تھا پہلے
دور سے ہم کو صدا دیتا تھا
تیری دیوار کا سایہ پہلے
اب کناروں سے لگے رہتے ہیں
رُخ بدلتے تھے یہ دریا پہلے
ہر نظر دل کا پتا دیتی تھی
کوئی چہرہ تھا نہ دھندلا پہلے
دیکھتے رہتے ہیں اب منہ سب کا
بات کرنے کا تھا چسکا پہلے
ہر بگولے سے الجھ جاتی تھی
رہ نوردی کی تمنا پہلے
یوں کبھی تھک کے نہ ہم بیٹھے تھے
گرچہ دشوار تھا رستہ پہلے
اب تو سینے کا ہے چھالا دنیا
دور سے شور سنا تھا پہلے
جوئے شیر آتی ہے دل سے باقیؔ
خود پہ ہی پڑتا ہے تیشہ پہلے
باقی صدیقی

تو جہاں آخری پردا ہو گا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 51
وہ مقام دل و جاں کیا ہو گا
تُو جہاں آخری پردا ہو گا
منزلیں راستہ بن جاتی ہیں
ڈھونڈنے والوں نے دیکھا ہو گا
سائے میں بیٹھے ہوئے سوچتے ہیں
کون اس دھوپ میں چلتا ہو گا
ابھی دل پر ہیں جہاں کی نظریں
آئنہ اور ابھی دھندلا ہو گا
راز سر بستہ ہے محفل تیری
جو سمجھ لے گا وہ تنہا ہو گا
اس طرح قطع تعلق نہ کرو
اس طرح اور بھی چرچا ہو گا
بعد مدت کے چلے دیوانے
کیا ترے شہر کا نقشہ ہو گا
سب کا منہ تکتے ہیں یوں ہم جیسے
کوئی تو بات سمجھتا ہو گا
پھول یہ سوچ کے کھل اٹھتے ہیں
کوئی تو دیدہ بینا ہو گا
خود سے ہم دور نکل آئے ہیں
تیرے ملنے سے بھی اب کیا ہو گا
ہم ترا راستہ تکتے ہوں گے
اور تو سامنے بیٹھا ہو گا
تیری ہر بات پہ چپ رہتے ہیں
ہم سا پتھر بھی کیا ہو گا
خود کو یاد آنے لگے ہم باقیؔ
پھر کسی بات پہ جھگڑا ہو گا
باقی صدیقی