ٹیگ کے محفوظات: نفی

اختیار ظلمت میں کچھ نہ کچھ کمی کرنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 6
جگنوؤں سے سیکھیں گے، ہم بھی روشنی کرنا
اختیار ظلمت میں کچھ نہ کچھ کمی کرنا
دل صداقتیں مانگے خیر و شر کی دنیا میں
وہم ہے محبت کا سب سے دوستی کرنا
کیوں پسند آیا ہے لا مکاں کی وسعت کو
میرا، چند گلیوں میں سیرِ زندگی کرنا
آ دماغ روشن کر، یہ چراغ روشن کر
ظلمتوں میں اچھا ہے شغلِ مے کشی کرنا
اے امامِ صحرا تُو آج کی گواہی دے
شرطِ آدمیت ہے جبر کی نفی کرنا
موتیے کی خوشبوئیں مل رہی ہیں یادوں میں
اس سمے تو آنکھوں کو چاہئے نمی کرنا
عشق میں مقلد ہیں ہم طریق ”غالب” کے
مہ رُخوں سے سیکھنا ہے ہم نے شاعری کرنا
آفتاب اقبال شمیم

تیرے ہوتے ہوئے ہو جاتے کسی کے کیسے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 552
جام کے بادہ کے خوشبو کے کلی کے کیسے
تیرے ہوتے ہوئے ہو جاتے کسی کے کیسے
زخم مرہم کی تمنا ہی نہیں کر سکتا
ہیں یہ احسان تری چارہ گری کے کیسے
نقشِ پا تیرے نہ ہوتے تو سرِ دشتِ وفا
جاگتے بخت یہ آشفتہ سری کے کیسے
اپنے کمرے میں ہمیں قید کیا ہے تُو نے
سلسلے تیرے ہیں آزاد روی کے کیسے
اتنے ناکردہ گناہوں کی سزا باقی تھی
ہائے در کھلتے بھلا بخت وری کے کیسے
صفر میں صفر ملاتے تھے تو کچھ بنتا تھا
جمع کر لیتے تھے اعداد نفی کے کیسے
جیپ آتی تھی تو سب گاؤں نکل آتا تھا
کیا کہوں بھاگ تھے اس بھاگ بھری کے کیسے
ہجر کی رات ہمیں دیکھ رہی تھی دنیا
بند ہو جاتے درے بارہ دری کے کیسے
ڈاک کے کام میں تو کوئی رکاوٹ ہی نہیں
سلسلے ختم ہوئے نامہ بری کے کیسے
موت کی اکڑی ہوئی سرد رتوں میں جی کر
یہ کھنچے ہونٹ کھلیں ساتھ خوشی کے کیسے
کون روتا ہے شبِ ہجر کی تنہائی میں
پتے پتے پہ ہیں یہ قطرے نمی کے کیسے
موج اٹھتی ہی نہیں کوئی سرِ چشمِ وفا
یہ سمندر ہیں تری تشنہ لبی کے کیسے
موت کی شکل بنائی ہی نہیں تھی اس نے
نقش تجسیم ہوئے جان کنی کے کیسے
آ ہمیں دیکھ کہ ہم تیرے ستم پروردہ
کاٹ آئے ہیں سفر تیرہ شبی کے کیسے
بس یہی بات سمجھ میں نہیں آتی اپنی
جو کسی کا بھی نہیں ہم ہیں اسی کے کیسے
آنکھ کہ چیرتی جاتی تھی ستاروں کے جگر
موسم آئے ہوئے ہیں دیدہ وری کے کیسے
کجکلاہوں سے لڑائی ہے ازل سے اپنی
دوست ہو سکتے ہیں ہم لوگ کجی کے کیسے
ہم چٹانوں کے جگر کاٹنے والے منصور
سیکھ بیٹھے ہیں ہنر شیشہ گری کے کیسے
منصور آفاق