ٹیگ کے محفوظات: نظارہ

ہم جس پہ مرمٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا

بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہوسکا
ہم جس پہ مرمٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا
رہ تو گئی فریبِ مسیحا کی آبرو
ہر چند غم کے ماروں کا چارہ نہ ہو سکا
خوش ہوں کہ بات شورشِ طوفاں کی رہ گئی
اچھا ہوا نصیب کنارا نہ ہو سکا
بے چارگی پہ چارہ گری کی ہیں تہمتیں
اچھا کسی سے عشق کا مارا نہ ہو سکا
کچھ عشق ایسی بخش گیا بے نیازیاں
دل کو کسی کا لُطف گوارا نہ ہو سکا
فرطِ خوشی میں آنکھ سے آنسو نکل پڑے
جب ان کا التفات گوارا نہ ہو سکا
الٹی تو تھی نقاب کسی نے مگر، شکیبؔ
دعووں کے باوجود نظارہ نہ ہو سکا
شکیب جلالی

اور ہر پارہ اس کا آوارہ

دیوان ششم غزل 1873
دل ہے میری بغل میں صد پارہ
اور ہر پارہ اس کا آوارہ
عرق شرم رو سے دلبر کے
رفتہ ثابت گذشتہ سیارہ
خواری عشق اپنی عزت ہے
کی ہے ہموار ہم نے ہموارہ
کام اس سے پکڑ کمر نہ لیا
ہیچ کارہ بھی ہے یہ ناکارہ
ٹوٹتیں پھوٹتیں نہ کاش آنکھیں
کرتے ان رخنوں ہی سے نظارہ
گو مسیحا مزاج آوے طبیب
عشق میں مرگ بن نہیں چارہ
کیا بنے اس سے میر میں مسکین
وہ جفاپیشہ و ستم کارہ
میر تقی میر

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

دیوان پنجم غزل 1736
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک
اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہو گا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے
چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ جی اٹھتا ہے دیکھے اسے
یار کے آجانے کو یکایک عمر دوبارہ جانے ہے
کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے
رخنوں سے دیوار چمن کے منھ کو لے ہے چھپا یعنی
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے
تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میر بھی ناداں تلخی کش
دمدار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے
میر تقی میر

ہر پارہ اس کا پاتے ہیں آوارہ دردمند

دیوان پنجم غزل 1603
رکھتا ہے دل کنار میں صدپارہ دردمند
ہر پارہ اس کا پاتے ہیں آوارہ دردمند
تسکین اپنے دل کی جو پاتا نہیں کہیں
جز صبر اور کیا کرے بے چارہ دردمند
اسلامی کفری کوئی ہو ہے شرط درد عشق
دونوں طریق میں نہیں ناکارہ دردمند
قابل ہوئی ہیں سیر کے چشمان خوں فشاں
دیکھیں ہیں آنکھوں لوہو کا فوارہ دردمند
کیا کام اس کو یاں کے نشیب و فراز سے
رکھتا ہے پاؤں دیکھ کے ہموارہ دردمند
اس کارواں سراے کے ہیں لوگ رفتنی
حسرت سے ان کا کرتے ہیں نظارہ دردمند
سو بار حوصلے سے اگر رنج کش ہو میر
پھر فرط غم سے مر رہے یک بارہ دردمند
میر تقی میر

زہ دامن کی بھری ہے لہو سے کس کو تونے مارا آج

دیوان پنجم غزل 1589
کس تازہ مقتل پہ کشندے تیرا ہوا ہے گذارا آج
زہ دامن کی بھری ہے لہو سے کس کو تونے مارا آج
کل تک ہم نے تم کو رکھا تھا سو پردے میں کلی کے رنگ
صبح شگفتہ گل جو ہوئے تم سب نے کیا نظارہ آج
کوئی نہیں شاہان سلف میں خالی پڑے ہیں دونوں عراق
یعنی خود گم اسکندر ہے ناپیدا ہے دارا آج
چشم مشتاق اس لب و رخ سے لمحہ لمحہ اٹھی نہیں
کیا ہی لگے ہے اچھا اس کا مکھڑا پیارا پیارا آج
اب جو نسیم معطر آئی شاید بال کھلے اس کے
شہر کی ساری گلیاں ہو گئیں گویا عنبر سارا آج
کل ہی جوش و خروش ہمارے دریا کے سے تلاطم تھے
دیکھ ترے آشوب زماں کے کر بیٹھے ہیں کنارہ آج
چشم چرائی دور سے کر وا مجھ کو لگا یہ کہہ کے گیا
صید کریں گے کل ہم آکر ڈال چلے ہیں چارا آج
کل ہی زیان جیوں کے کیے ہیں عشق میں کیا کیا لوگوں نے
سادگی میری چاہ میں دیکھو میں ڈھونڈوں ہوں چارہ آج
میر ہوئے ہو بے خود کب کے آپ میں بھی تو ٹک آئو
ہے دروازے پر انبوہ اک رفتۂ شوق تمھارا آج
میر تقی میر

کچھ ہمارا اسی میں وارا تھا

دیوان چہارم غزل 1336
جان اپنا جو ہم نے مارا تھا
کچھ ہمارا اسی میں وارا تھا
کون لیتا تھا نام مجنوں کا
جب کہ عہد جنوں ہمارا تھا
کوہ فرہاد سے کہیں آگے
سر مرا اور سنگ خارا تھا
ہم تو تھے محو دوستی اس کے
گوکہ دشمن جہان سارا تھا
لطف سے پوچھتا تھا ہر کوئی
جب تلک لطف کچھ تمھارا تھا
آستاں کی کسو کے خاک ہوا
آسماں کا بھی کیا ستارہ تھا
پائوں چھاتی پہ میری رکھ چلتا
یاں کبھو اس کا یوں گذارا تھا
موسم گل میں ہم نہ چھوٹے حیف
گشت تھا دید تھا نظارہ تھا
اس کی ابرو جو ٹک جھکی ایدھر
قتل کا تیغ سے اشارہ تھا
عشق بازی میں کیا موئے ہیں میر
آگے ہی جی انھوں نے ہارا تھا
میر تقی میر

یعنی میرا استعارہ رکھ دیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 112
ریل کی پٹڑی پہ تارہ رکھ دیا
یعنی میرا استعارہ رکھ دیا
کھینچ کر اس نے نظر کی ایک حد
آنکھ میں شوقِ نظارہ رکھ دیا
خاک پر بھیجا مجھے اور چاند پر
میری قسمت کا ستارہ رکھ دیا
بچ بچا کر کوزہ گر کی آنکھ سے
چاک پر خود کو دوبارہ رکھ دیا
دور تک نیلا سمندر دیکھ کر
میں نے کشتی میں کنارہ رکھ دیا
انتظار آباد یوں رکھا بدن
ہر روئیں پر ایک تارہ رکھ دیا
دیکھا جو سوکھی ہوئی لکڑی کا دل
اس میں خواہش کا شرارہ رکھ دیا
پہلے رکھا یاد نے منصور ہاتھ
رفتہ رفتہ بوجھ سارا رکھ دیا
منصور آفاق