ٹیگ کے محفوظات: نصاب

ٹھیک رکھتے ہیں جو حساب کتاب

اُن پہ لاتی نہیں عذاب کتاب
ٹھیک رکھتے ہیں جو حساب کتاب
کبھی سورج کی آب و تاب کتاب
ہے کبھی سایہء سحاب کتاب
لکھ رہا ہوں میں آجکل واعظ
تیری تقریر کا جواب کتاب
آپ ہی نے تو کی تھی فرمائش
لیجیے پیش ہے جناب کتاب
ہم سے باصِرؔ کبھی پڑھی نہ گئی
جو ہوئی شاملِ نصاب کتاب
باصر کاظمی

شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 237
مجھ کو شبِ وجود میں تابشِ خواب چاہیے
شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے
آج شکستِ ذات کی شام ہے مجھ کو آج شام
صرف شراب چاہیے ، صرف شراب چاہیے
کچھ بھی نہیں ہے ذہن میں کچھ بھی نہیں سو اب مجھے
کوئی سوال چاہیے کوئی جواب چاہیے
اس سے نبھے گا رشتۂِ سودوزیاں بھی کیا بھلا
میں ہوں بَلا کا بدحساب اس کو حساب چاہیے
امن و امانِ شہرِ دل خواب و خیال ہے ابھی
یعنی کہ شہرِ دل کا حال اور خراب چاہیے
جانِ گماں ہمیں تو تم صرف گمان میں رکھو
تشنہ لبی کو ہر نفس کوئی سراب چاہیے
کھل تو گیا ہے دل میں ایک مکتبِ حسرت و امید
جون اب اس کے واسطے کوئی نصاب چاہیے
جون ایلیا