ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
میں ابھی موت سے بچ کر نکلا
موت کیسی؟ یہ مرا ڈر نکلا
اشک تھے سو تو چھُپائے مَیں نے
پھول کالر پہ سجا کر نکلا
مَیں تو ہوں مُہر بلب بھی لیکن
کام کچھ یہ بھی ہے دُوبھر نکلا
یہ الگ بات کہ پیچھا نہ کیا
گھر سے تو اُس کے برابر نکلا
خاک سے جس کا اُٹھایا تھا خمیر
ہم رکابِ مہ و اختر نکلا
مَیں کہ عُریاں نہ ہُوا تھا پہلے
بن کے اُس شوخ کا ہمسر نکلا
غم کی دہلیز نہ چھوڑی میں نے
میں نہ گھر سے کبھی باہر نکلا
جو اُڑاتا مجھے ہم دوشِ صبا
مجھ میں ایسا نہ کوئی پر نکلا
اُس نے بے سود ہی پتھر پھینکے
حوصلہ میرا سمندر نکلا
درد اظہار کو پہنچا ماجدؔ
دل سے جیسے کوئی نشتر نکلا
ماجد صدیقی