ٹیگ کے محفوظات: نسبت

محبت بقدرِ محبت نہیں ہے

زمانے کی پہلی سی فطرت نہیں ہے
محبت بقدرِ محبت نہیں ہے
نقاب اپنے رُخ سے اٹھاتے تو ہیں وہ
مگر میری نظروں کو فرصت نہیں ہے
تلاطم میں پاتا ہوں میں امنِ ساحل
مجھے امنِ ساحل سے نسبت نہیں ہے
یہ ہیں اہلِ دنیا کے دلچسپ دھوکے
کسی کو کسی سے محبت نہیں ہے
نہ ہو جس میں بے لوث کوئی بھی سجدہ
خدا جانے کیا ہے، عبادت نہیں ہے
زمانے میں انساں ہے انساں کا دشمن
یہاں اب خلوص و محبت نہیں ہے
نگاہوں سے ان کی نگاہیں ملائیں
شکیبؔ حزیں ! اتنی فرصت نہیں ہے
شکیب جلالی

ایسے ابنائے زمانہ سے مجھے وحشت ہو

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 93
وقت کے ساتھ بدلنے کی جنہیں عادت ہو
ایسے ابنائے زمانہ سے مجھے وحشت ہو
جیسے دیوار میں در وقفۂ آزادی ہے
کیا خبر جبر و ارادہ میں وہی نسبت ہو
روزمرہ کے مضافات میں ہم گھوم آئیں
اتنی فرصت ہو، مگر اتنی کسے فرصت ہو
آدمی روز کی روٹی پہ ہی ٹل جاتا ہے
اور بیچارے پہ کیا اِس سے بڑی تہمت ہو
ایک رفتار میں یوں وقفہ بہ وقفہ چلنا
کیا عجب، وقت کو چلنے میں کوئی دقّت ہو
سرخ منقار کا میں سبز پرندہ تو نہیں
کیوں نہ تکرار کی خُو میرے لئے زحمت ہو
آفتاب اقبال شمیم

کہ یہ عالم ترے ہونے کی بدولت ہی تو ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 329
نبضِ عالم میں رواں تیری حرارت ہی تو ہے
کہ یہ عالم ترے ہونے کی بدولت ہی تو ہے
تیرے ہی پیک ہیں سب سچے صحیفوں والے
ان کا آنا ترے آنے کی بشارت ہی تو ہے
ہم تو اک دھوپ کا صحرا تھے جہاں اوس نہ پھول
ہم پہ برسا یہ ترا ابر عنایت ہی تو ہے
پیش کرتا ہے یہی داورِ محشر کے حضور
میرا سرمایہ ترے نام سے نسبت ہی تو ہے
اس فقیری میں کبھی سر نہیں جھکنے پاتا
میرا تکیہ ترا بازوئے حمایت ہی تو ہے
میں بھی گریاں ہوں اسی چوبِ شجر کی مانند
جس میں بھی جاگ اٹھے دردِ محبت ہی تو ہے
عرفان صدیقی

عرفانؔ تم یہ درد کی دولت کہاں سے لائے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 252
دستِ تہی میں گوہرِ نصرت کہاں سے لائے
عرفانؔ تم یہ درد کی دولت کہاں سے لائے
سب دین ہے خدا کی سو ہر دودمانِ شوق
چادر کہاں سے لائے ولایت کہاں سے لائے
پانی نہ پائیں ساقی کوثر کے اہلِ بیتؑ
موج فرات اشک ندامت کہاں سے لائے
لو ہاتھ اہلِ صبر و رضا نے کٹا دیے
اب ظلم سوچتا ہے کہ بیعت کہاں سے لائے
میں آلِ خانہ زاد علیؑ ، اُن کا ریزہ خوار
قسمت نہ ہو تو کوئی یہ نسبت کہاں سے لائے
ہاں اہلِ زر کے پاس خزانے تو ہیںؓ مگر
مولاؑ کا یہ فقیر ضرورت کہاں سے لائے
عرفان صدیقی

مجھے حیرت ہے تو حیرت ہی سہی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 181
وہ نظر آئنہ فطرت ہی سہی
مجھے حیرت ہے تو حیرت ہی سہی
زندگی داغ محبت ہی سہی
آپ سے دور کی نسبت ہی سہی
تم نہ چاہو تو نہیں کٹ سکتی
ایک لمحے کی مسافت ہی سہی
دل محبت کی ادا چاہتا ہے
ایک آنسو دم رخصت ہی سہی
آب حیواں بھی نہیں مجھ پہ حرام
زہر کی مجھ کو ضرورت ہی سہی
اپنی تقدیر میں سناٹا ہے
ایک ہنگامے کی حسرت ہی سہی
اس قدر شور طرب کیا معنی
جاگنے کی مجھے عادت ہی سہی
بزم رنداں سے تعلق کیسا
آپ کی میز پہ شربت ہی سہی
حد منزل ہے مقرر باقیؔ
رہرو شوق کو عجلت ہی سہی
باقی صدیقی