زمانے کی پہلی سی فطرت نہیں ہے
محبت بقدرِ محبت نہیں ہے
نقاب اپنے رُخ سے اٹھاتے تو ہیں وہ
مگر میری نظروں کو فرصت نہیں ہے
تلاطم میں پاتا ہوں میں امنِ ساحل
مجھے امنِ ساحل سے نسبت نہیں ہے
یہ ہیں اہلِ دنیا کے دلچسپ دھوکے
کسی کو کسی سے محبت نہیں ہے
نہ ہو جس میں بے لوث کوئی بھی سجدہ
خدا جانے کیا ہے، عبادت نہیں ہے
زمانے میں انساں ہے انساں کا دشمن
یہاں اب خلوص و محبت نہیں ہے
نگاہوں سے ان کی نگاہیں ملائیں
شکیبؔ حزیں ! اتنی فرصت نہیں ہے
شکیب جلالی