ٹیگ کے محفوظات: نرالی

تیرے جگ کی ریت نرالی

کوئی ہے داتا کوئی سوالی
تیرے جگ کی ریت نرالی
موتی رولے ساحل ساحل
پھر بھی ہے دامن خالی خالی
ان کی قسمت دُودھ کے ساگر
میرا حصہ زہر کی پیالی
بادِ صبا ہے زخم سراپا
خار اُگے ہیں ڈالی ڈالی
دَھن کے رُوپہلی تہہ خانوں پر
پھن لہرائے ناگن کالی
میں نے جس کے عیب چھپائے
اسی نے میری بات اُچھالی
اس کے علاوہ ہم کیا بولیں
تم نے دل کی بات چُرا لی
شکیب جلالی

بس قیامت اب آنے والی ہے

ہر طرف اِک لہو کی لالی ہے
بس قیامت اب آنے والی ہے
آسماں پر ہے زندگی کا دماغ
سانس اِک مستعار کیا لی ہے
جس سے پیش آئیے محبّت سے
وہ سمجھتا ہے یہ سوالی ہے
آپ جانیں اور آپ کی دُنیا
ہم نے دُنیا نئی بَسا لی ہے
ہر نظر میں ہے ایک ہی پیغام
بزمِ دل جانے کب سے خالی ہے
جِس کو قحط الرجال کہتے ہیں
کیا وہ صورت کوئی نِرالی ہے
چُپ سے ہیں اہلِ انجمن جب سے
آپ نے انجمن سنبھالی ہے
روح اور دل میں فاصلے ہیں بہت
کس نے یہ طرزِ نَو نکالی ہے؟
آؤ ضامنؔ! نئی جگہ ڈھونڈیں
یاں کی ہر چیز دیکھی بھالی ہے
ضامن جعفری

کیا تازہ کوئی گل نے اب شاخ نکالی ہے

دیوان اول غزل 584
پھر اس سے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے
کیا تازہ کوئی گل نے اب شاخ نکالی ہے
سچ پوچھو تو کب ہے گا اس کا سا دہن غنچہ
تسکیں کے لیے ہم نے اک بات بنا لی ہے
دیہی کو نہ کچھ پوچھو اک بھرت کا ہے گڑوا
ترکیب سے کیا کہیے سانچے میں کی ڈھالی ہے
ہم قد خمیدہ سے آغوش ہوئے سارے
پر فائدہ تجھ سے تو آغوش وہ خالی ہے
عزت کی کوئی صورت دکھلائی نہیں دیتی
چپ رہیے تو چشمک ہے کچھ کہیے تو گالی ہے
دو گام کے چلنے میں پامال ہوا عالم
کچھ ساری خدائی سے وہ چال نرالی ہے
ہے گی تو دو سالہ پر ہے دختررز آفت
کیا پیرمغاں نے بھی اک چھوکری پالی ہے
خونریزی میں ہم سوں کی جو خاک برابر ہیں
کب سر تو فرو لایا ہمت تری عالی ہے
جب سر چڑھے ہوں ایسے تب عشق کریں سو بھی
جوں توں یہ بلا سر سے فرہاد نے ٹالی ہے
ان مغبچوں میں زاہد پھر سرزدہ مت آنا
مندیل تری اب کے ہم نے تو بچالی ہے
کیا میر تو روتا ہے پامالی دل ہی کو
ان لونڈوں نے تو دلی سب سر پہ اٹھا لی ہے
میر تقی میر

یہ عجب تم نے نکالی ہے شریعت اپنی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 458
ذبح خانے سی بنالی ہے شریعت اپنی
یہ عجب تم نے نکالی ہے شریعت اپنی
قتل منسون ،دھماکے جائز، تاوان حلال
ان دنوں دیکھنے والی ہے شریعت اپنی
کعبۂ دل کی ہے بس فرض مسلسل صلوات
عشق میں کیسی مثالی ہے شریعت اپنی
ہم غلامانِ محمدﷺ ہیں ، علی کے بھی غلام
بس طریقت میں بلالی ہے شریعت اپنی
کون مسجد میں در آیا ہے ہماری منصور
کس نے منبر سے چرالی ہے شریعت اپنی
منصور آفاق

گرہ میں اعترافِ جرم ہے اور ہاتھ خالی ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 356
یہی بس چار نعتیں تھیں جو سینے پر سجالی ہیں
گرہ میں اعترافِ جرم ہے اور ہاتھ خالی ہیں
وہی تیرا تمدن ہے بنو ہاشم کی گلیوں میں
امیہ کے نسب نے تازہ تہذیبیں بنا لی ہیں
ترؐے مذہب میں گنجائش نہیں تھی زرکی سو ہم نے
گھروں سے اشرفیاں ، شام سے پہلے نکالی ہیں
مجھے محسوس ہوتا ہے مدینہ آنے والا ہے
لبوں پر کپکپاہٹ ہے یہ آنکھیں رونے والی ہیں
نگاہیں دیکھتی تھیں کتنے سچے خواب یثرب کے
یہ پہچانے ہوئے گھر ہیں یہ گلیاں دیکھی بھالی ہیں
وہی لاہوتی کیفیت اترتی ہے رگ و پے میں
وہی نوری فضائیں ہیں وہی صبحیں نرالی ہیں
کوئی قوسِ قزح سی بھر گئی منصور آنکھوں میں
حریمِ رحمتِ عالم کے کیا رنگِ جمالی ہیں
منصور آفاق