ٹیگ کے محفوظات: نبات

نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا

دیوان دوم غزل 664
ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا
نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا
بکھری ہے زلف اس رخ عالم فروز پر
ورنہ بنائو ہووے نہ دن اور رات کا
در پردہ وہ ہی معنی مقوم نہ ہوں اگر
صورت نہ پکڑے کام فلک کے ثبات کا
ہیں مستحیل خاک سے اجزاے نوخطاں
کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا
مستہلک اس کے عشق کے جانیں ہیں قدر مرگ
عیسیٰ و خضر کو ہے مزہ کب وفات کا
اشجار ہوویں خامہ و آب سیہ بحار
لکھنا نہ تو بھی ہوسکے اس کی صفات کا
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا
بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ
ہے دید چشم دل کے کھلے عین ذات کا
ہر صفحے میں ہے محو کلام اپنا دس جگہ
مصحف کو کھول دیکھ ٹک انداز بات کا
ہم مذنبوں میں صرف کرم سے ہے گفتگو
مذکور ذکر یاں نہیں صوم و صلوٰت کا
کیا میر تجھ کو نامہ سیاہی کا فکر ہے
ختم رسل سا شخص ہے ضامن نجات کا
میر تقی میر

سجدہ اس آستاں کا کیا پھر وفات کی

دیوان اول غزل 469
غم سے یہ راہ میں نے نکالی نجات کی
سجدہ اس آستاں کا کیا پھر وفات کی
نسبت تو دیتے ہیں ترے لب سے پر ایک دن
ناموس یوں ہی جائے گی آب حیات کی
صد حرف زیر خاک تہ دل چلے گئے
مہلت نہ دی اجل نے ہمیں ایک بات کی
ہم تو ہی اس زمانے میں حیرت سے چپ نہیں
اب بات جاچکی ہے سبھی کائنات کی
پژمردہ اس کلی کے تئیں وا شدن سے کیا
آہ سحر نے دل پہ عبث التفات کی
حور و پری فرشتہ بشر مار ہی رکھا
دزدیدہ تیرے دیکھنے نے جس پہ گھات کی
اس لب شکر کے ہیں گے جہاں ذائقہ شناس
اس جا دعا پہنچتی نہیں ہے نبات کی
عرصہ ہے تنگ چال نکلتی نہیں ہے اور
جو چال پڑتی ہے سو وہ بازی کی مات کی
برقع اٹھا تھا یار کے منھ کا سو میر کل
سنتے ہیں آفتاب نے جوں توں کے رات کی
میر تقی میر