ٹیگ کے محفوظات: نایاب

ٹُوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو

گُونجتا ہے نالہِ مہتاب آدھی رات کو
ٹُوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو
بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹُوٹتے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو
شام ہی سے بزمِ انجم نشہِ غفلت میں تھی
چاند نے بھی پی لیا زہراب آدھی رات کو
اک شکستہ خواب کی کڑیاں ملانے آئے ہیں
دیر سے بچھڑے ہوئے احباب آدھی رات کو
دولتِ احساسِ غم کی اتنی اَرزانی ہوئی
نیند سی شے ہو گئی نایاب آدھی رات کو
شکیب جلالی

جنس نایاب ہو گئی شاید

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 37
نیند تو خواب ہو گئی شاید
جنس نایاب ہو گئی شاید
اپنے گھر کی طرح وہ لڑکی بھی
نذرِ سیلاب ہو گئی شاید
تجھ کو سوچوں تو روشنی دیکھوں
یاد ، مہتاب ہو گئی شاید
ایک مدت سے آنکھ روئی نہیں
جھیل پایاب ہو گئی شاید
ہجر کے پانیوں میں عشق کی ناؤ
کہیں غرقاب ہو گئی شاید
چند لوگوں کی دسترس میں ہے
زیست کم خواب ہو گئی شاید
پروین شاکر

چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 31
آنکھوں سے میری، کون مرے خواب لے گیا
چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا
اِس شہرِ خوش جمال کو کِس کی لگی ہے آہ
کِس دل زدہ کا گریہ خونناب لے گیا
کُچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دُور تھا
کُچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا
واں شہر ڈُوبتے ہیں ، یہاں بحث کہ اُنہیں
خُم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا
کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
شاید اُنہیں بہا کے کوئی خواب لے گیا
طوفان اَبر و باد میں سب گیت کھو گئے
جھونکا ہَوا کا ہاتھ سے مِضراب لے گیا
غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا
اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
’’مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا!
پروین شاکر

فرش ہے مخمل و کمخواب ترے کوچے میں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 74
کیوں نہ اڑ جائے مرا خواب ترے کوچے میں
فرش ہے مخمل و کمخواب ترے کوچے میں
دولتِ حسن یہاں تک تو لٹائی ظالم
اشک ہے گوہرِ نایاب ترے کوچے میں
جوششِ گریۂ عشاق سے اک دم میں ہوا
شجرِ سوختہ، شاداب ترے کوچے میں
ہوش کا پاؤں جو یاں آ کے پھسل جاتا ہے
کیا لنڈھائی ہے مئے ناب ترے کوچے میں
ہے کفِ پائے عدو، پا سے ترے رنگیں تر
بس کہ ہم روتے ہیں خوناب ترے کوچے میں
گوشہ گیری سے بھی گردش نہ گئ طالع کی
پھرتے ہیں صورتِ دولاب ترے کوچے میں
غیر نے سنگ جو پھینکے وہ ہوئے بالشِ سر
چین سے کرتے ہیں ہم خواب ترے کوچے میں
وہ بھی محروم نہیں جن کو نہیں بزم میں بار
تیرے رخسار کی ہے تاب ترے کوچے میں
چل دیا شیفتہ سودے میں خدا جانے کہاں
ڈھونڈتے پھرتے ہیں احباب ترے کوچے میں
مصطفٰی خان شیفتہ

کہ کچھ حظ اٹھے سیرِ مہتاب کا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 17
پلا جام ساقی مے ناب کا
کہ کچھ حظ اٹھے سیرِ مہتاب کا
دلِ زار کا ماجرا کیا کہوں
فسانہ ہے مشہور سیماب کا
کہاں پھر وہ نایاب، پایا جسے
غلط شوق ہے جنسِ نایاب کا
نہ کیجو غل اے خوش نوایانِ صبح
یہ ہے وقت ان کی شکر خواب کا
محبت نہ ہرگز جتائی گئی
رہا ذکر کل اور ہر باب کا
دمِ سرد سے لا نہ طوفانِ باد
نہ سن ماجرا چشمِ پر آب کا
وہاں بے خودوں کی خبر کون لے
جہاں شغل ہو بادۂ ناب کا
وہاں تیرہ روزوں کی پروا کسے
جہاں شوق ہو سیرِ مہتاب کا
وہ تشخیصِ شخصی بھی جاتی رہی
کنارا الٹتے ہی جلباب کا
میں بے جرم رہتا ہوں خائف کہ واں
جفا میں نہیں دخل اسباب کا
پڑے صبر آرام کی جان پر
مری جانِ بے صبر و بے تاب کا
لبِ لعل کو کس کے جنبش ہوئی
ہوا میں ہے کچھ رنگ عناب کا
نہ کرنا خطا پر نظر شیفتہ
کہ اغماض شیوہ ہے احباب کا
مصطفٰی خان شیفتہ

شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 91
شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا
جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا
یاں سرِ پرشور بے خوابی سے تھا دیوار جو
واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا
یاں نفَس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بےخودی
جلوۂ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
ناگہاں اس رنگ سے خوں نابہ ٹپکانے لگا
دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا
مرزا اسد اللہ خان غالب

جی دل کے اضطراب سے بے تاب تھا سو تھا

دیوان سوم غزل 1103
آنکھوں میں اپنی رات کو خوناب تھا سو تھا
جی دل کے اضطراب سے بے تاب تھا سو تھا
آکر کھڑا ہوا تھا بہ صدحسن جلوہ ناک
اپنی نظر میں وہ در نایاب تھا سو تھا
ساون ہرے نہ بھادوں میں ہم سوکھے اہل درد
سبزہ ہماری پلکوں کا سیراب تھا سو تھا
درویش کچھ گھٹا نہ بڑھا ملک شاہ سے
خرقہ کلاہ پاس جو اسباب تھا سو تھا
کیا بھاری بھاری قافلے یاں سے چلے گئے
تجھ کو وہی خیال گراں خواب تھا سو تھا
برسوں سے ہے تلاوت و سجادہ و نماز
پر میل دل جو سوے مئے ناب تھا سو تھا
ہم خشک لب جو روتے رہے جوئیں بہ چلیں
پر میر دشت عشق کا بے آب تھا سو تھا
میر تقی میر

ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب

دیوان اول غزل 175
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پرآب روز و شب
ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب
اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا
آئی تھی آنکھوں سے چلی سیلاب روز و شب
اس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے
رہتا تھا پاس وہ در نایاب روز و شب
قدرت تو دیکھ عشق کی مجھ سے ضعیف کو
رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب روز و شب
سجدہ اس آستاں کا نہیں یوں ہوا نصیب
رگڑا ہے سر میانۂ محراب روز و شب
اب رسم ربط اٹھ ہی گئی ورنہ پیش ازیں
بیٹھے ہی رہتے تھے بہم احباب روز و شب
دل کس کے رو و مو سے لگایا ہے میر نے
پاتے ہیں اس جوان کو بیتاب روز و شب
میر تقی میر