گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں
کوئی بھی یادگارِ رفتہ نہیں
فرصتِ شوق بن گئی دِیوار
اب کہیں بھاگنے کا رستہ نہیں
ہوش کی تلخیاں مٹیں کیسے
جتنی پیتا ہوں اُتنا نشہ نہیں
دل کی گہرائیوں میں ڈُوب کے دیکھ
کوئی نغمہ خوشی کا نغمہ نہیں
غم بہر رنگ دل کشا ہے مگر
سننے والوں کو تابِ نالہ نہیں
مجھ سے کہتی ہے مَوجِ صبحِ نشاط
پھول خیمہ ہے پیش خیمہ نہیں
ابھی وہ رنگ دل میں پیچاں ہیں
جنھیں آواز سے علاقہ نہیں
ابھی وہ دشت منتظر ہیں مرے
جن پہ تحریر پائے ناقہ نہیں
یہ اندھیرے سلگ بھی سکتے ہیں
تیرے دل میں مگر وہ شعلہ نہیں
راکھ کا ڈھیر ہے وہ دل ناصر
جس کی دھڑکن صدائے تیشہ نہیں
ناصر کاظمی