ٹیگ کے محفوظات: ناتمام

ہو گئی آج کی بھی شام تمام

پھر نہ ہو پایا کوئی کام تمام
ہو گئی آج کی بھی شام تمام
تشنگی کو مٹاتے مٹ گئے ہم
تشنگی کو ملا دوام تمام
وائے نسیاں۔۔۔ میں خود کو بھول گیا
کر کے آیا تھا اہتمام تمام
ناتمامی تمام عمر رہی
زندگی اپنی ناتمام، تمام
گو ادھوری تھی داستانِ سفر
ہوتی آئی ہے گام گام تمام
ناتمامی کی زندگی ساری
کام کیا کرتے تشنہ کام تمام
ہم سے اس عمرِ خام نے یاؔور
لے کے چھوڑا ہے انتقام تمام
یاور ماجد

کیا ذکر یاں مسیح علیہ السلام کا

دیوان سوم غزل 1067
اعجاز منھ تکے ہے ترے لب کے کام کا
کیا ذکر یاں مسیح علیہ السلام کا
رقعہ ہمیں جو آوے ہے سو تیر میں بندھا
کیا دیجیے جواب اجل کے پیام کا
کچھ سدھ سنبھالتے ہی رکھی ان نے پگڑی پھیر
ممنون میں نہیں ہوں جواب سلام کا
منھ دیکھو بدر کا کہ تری روکشی کرے
تو یوں ہی نام لے ہے کسو ناتمام کا
نوبت ہے اپنی جب سے یہی کوچ کاہے شور
بجنا سنا نہیں ہے کبھو یاں مقام کا
کنج لب اس کا دیکھ کے خاموش رہ گئے
یعنی کہ تھا مقام یہ ختم کلام کا
اس رو و مو کے محو کو کیا روزگار سے
جلوہ ہی کچھ جدا ہے مرے صبح و شام کا
صاحب ہو مار ڈالو مجھے تم وگرنہ کچھ
جز عاشقی گناہ نہیں ہے غلام کا
کب اقتدا ہو مجھ سے کسو کی سواے میر
بندہ ہوں دل سے میں اسی سید امام کا
میر تقی میر

کاہش مجھے جو ہے وہی ہوتی ہے شام سے

دیوان دوم غزل 980
برسوں ہوئے گئے ہوئے اس مہ کو بام سے
کاہش مجھے جو ہے وہی ہوتی ہے شام سے
تڑپے اسیر ہوتے جو ہم یک اٹھا غبار
سوجھا نہ ہم کو دیر تلک چشم دام سے
دنبال ہر نگاہ ہے صد کاروان اشک
برسے ہے چشم ابر بڑی دھوم دھام سے
محو اس دہان تنگ کے ہیں کوئی کچھ کہو
رہتا ہے ہم کو عشق میں کام اپنے کام سے
یوسفؑ کے پیچھے خوار زلیخا عبث ہوئی
کب صاحبی رہی ہے مل ایسے غلام سے
لڑکے ہزاروں جھولی میں پتھر لیے ہیں ساتھ
مجنوں پھرا ہے کاہے کو اس ازدحام سے
وہ ناز سے چلا کہیں تو حشر ہوچکے
پھر بحث آپڑے گی اسی کے خرام سے
جھک جھک سلام کرنے سے سرکش ہوا وہ اور
ہو بیٹھے ناامید جواب سلام سے
وے دن گئے کہ رات کو یک جا معاش تھی
آتا ہے اب تو ننگ اسے میرے نام سے
سرگرم جلوہ بدر ہو ہر چند شب کو لیک
کب جی لگیں ہیں اپنے کسو ناتمام سے
دل اور عرش دونوں پہ گویا ہے ان کی سیر
کرتے ہیں باتیں میر جی کس کس مقام سے
میر تقی میر

ماہ تمام یارو کیا ناتمام نکلا

دیوان دوم غزل 725
روکش ہوا جو شب وہ بالاے بام نکلا
ماہ تمام یارو کیا ناتمام نکلا
ہو گوشہ گیر شہرت مدنظر اگر ہے
عنقا کی طرح اپنا عزلت سے نام نکلا
تھا جن کو عاشقی میں دعواے پختہ مغزی
سودا انھوں کا آخر دیکھا تو خام نکلا
نومید قیس پایا ناکام کوہکن کو
اس عشق فتنہ گر سے وہ کس کا کام نکلا
کیونکر نہ مر رہے جو بیتاب میر سا ہو
ایک آدھ دن تو گھر سے دل تھام تھام نکلا
میر تقی میر

قبول تشنہ دلاں ہو سلام پانی کا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 37
بھرا ہے اشک ندامت سے جام پانی کا
قبول تشنہ دلاں ہو سلام پانی کا
زیارت در خیمہ نہ تھی نصیب فرات
سو آج تک ہے سفر ناتمام پانی کا
رگ گلو نے بجھائی ہے تیغ ظلم کی پیاس
کیا ہے خون شہیداں نے کام پانی کا
علم ہوا سر نیزہ جو ایک مشکیزہ
شجر لگا سر صحرائے شام پانی کا
اگر وہ تشنگئ لازوال یاد رہے
کبھی نہ آئے زبانوں پہ نام پانی کا
اُسے تلاش نہ کر دشت کربلا میں کہ ہے
ہمارے دیدۂ تر میں قیام پانی کا
عرفان صدیقی