ٹیگ کے محفوظات: میلہ

سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 57
سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا
سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا
آج تک ہیں اسی کوچے میں نگاہیں آباد
صورتیں اچھی، چراغ اچھے، دریچہ اچھا
ایک چلو سے بھرے گھر کا بھلا کیا ہو گا
ہم کو بھی نہر سے پیاسا پلٹ آنا اچھا
پھول چہروں سے بھی پیارے تو نہیں ہیں جنگل
شام ہوجائے تو بستی ہی کا رستہ اچھا
رات بھر رہتا ہے زخموں سے چراغاں دل میں
رفتگاں، تم نے لگا رکھا ہے میلہ اچھا
جا کے ہم دیکھ چکے، بند ہے دروازہ شہر
ایک رات اور یہ رُکنے کا بہانہ اچھا
عرفان صدیقی

میلہ

تھئیٹر کی کھڑکی پہ بیٹھا ہوا کمپنی کا ملازم

ٹکٹ بیچتا ہے

بھرے ہال میں دن، مہینے، برس بے بدل حالتوں کے

لڑائی کے منظر کی سرشاریوں میں

ولین اور ہیرو کوآپس میں جگہیں بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں

قناتوں سے باہر

بڑی رونقیں ہیں

پرانے پھّٹے چیتھڑوں میں بسی بے نیازی سے چمٹا بجاتے ہوئے گا رہا ہے

اُسی قول کے بول جس کو

کئی بار بستی کی چو سر پہ ہارا گیا ہے

قناتوں کے اندر

تماشے کا پنڈال وعدے کے رنگیں غباروں

بیانات کی جھلملاتی ہوئی کترنوں سے

سنوارا گیا ہے

جہاں آتے جاتے تماشائیوں اور خبروں کی مڈبھیڑ میں

ہوش سے ہوش بچھڑا ہوا ہے

بڑی رونقیں ہیں

گلابی ہے شیشہ نشاط آفریں ماڈلوں کی دمک سے

کہیں پر

ظرافت کو سنجیدگی لکھنے والے کی ارزاں نویسی کی

دھومیں مچی ہیں

کہیں پر

سدھائے ہوئے شیرکی ٹیپ کردہ صدا دھاڑتی ہے

کہیں پر

قدامت کے پنجرے میں پالا ہوا طائر سبز

لحنِ مکرر میں نغمہ سرا ہے

انہی رونقوں میں

وہ ہارا ہوا شخص رومان کا سرخ رومال

ماتھے پہ باندھے ہوئے،

کان میں ناشنیدہ سخن کی پھریری رکھے،

بے عصا چل رہا ہے

وہی جس نے سپنوں کے ساون میں آنکھیں گنوا دیں

ہرا ہی ہرا دیکھتا ہے

آفتاب اقبال شمیم

دیکھ رہا ہے ان جانے لوگوں کا ریلا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 2
ندی کے اس پار کھڑا اک پیڑ اکیلا
دیکھ رہا ہے ان جانے لوگوں کا ریلا
یوں تیری ان جان جوانی راہ میں آئی
جیسے تو بچپن سے میرے ساتھ نہ کھیلا
جنگل کے سناٹے سے کچھ نسبت تو ہے
شہر کے ہنگامے میں پھرتا کون اکیلا
پہلی آگ ابھی تک ہے رگ رگ میں باقیؔ
سنتے ہیں کل پھر گاؤں میں ہو گا میلہ
باقی صدیقی