ٹیگ کے محفوظات: میخانے

جو ہم پی کر چلے آئے تو میخانے پہ کیا گزری

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 92
نہ جانے ساغر و مینا پہ پیمانے پہ کیا گزری
جو ہم پی کر چلے آئے تو میخانے پہ کیا گزری
بڑی رنگینیاں تھیں اولِ شب ان کی محفل میں
بتاؤ بزم والو رات ڈھل جانے پہ کیا گزری
چھپائیں گے کہاں تک رازِ محفل شمع کے آنسو
کہے گی خاکِ پروانہ کہ پروانے پہ کیا گزری
مرا دل جانتا ہے دونوں منظر میں نے دیکھے ہیں
ترے آنے پہ کیا گزری ترے جانے پہ کیا گزری
بگولے مجھ سے کوسوں دور بھاگے دشتِ وحشت میں
بس اتنا میں نے پوچھا تھا کہ دیوانے پہ کیا گزری
گری فصلِ چمن پر برق دیوانے یہ کیا جانیں
مصیبت باغ پر گزری تھی ویرانے پہ کیا گزری
قمر جھیلے دِلِ صد چاک نے الفت میں دکھ کیا کیا
کوئی زلفوں سے اتنا پوچھ لے شانے پہ کیا گزری
قمر جلالوی

شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 59
ہم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک
شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک
دیکھیے محفلِ ساقی کا نتیجہ کیا ہوا
بات شیشے کی پہنچنے لگی پیمانے تک
صبح ہوئی نہیں اے عشق یہ کیسی شب ہے
قیس و فرہاد کے دہرا لئے افسانے تک
پھر نہ طوفان اٹھیں گے نہ گرے گی بجلی
یہ حوادث ہیں غریبوں ہی کے مٹ جانے تک
میں نے ہر چند بلا ٹالنی چآ ہی لیکن
شیخ نے ساتھ نہ چھوڑا مرا میخانے تک
وہ بھی کیا دن تھے گھر سے کہیں جاتے ہی نہ تھے
اور گئے بھی تو فقط شام کو میخانے تک
میں وہاں کیسے حقیقت کو سلامت رکھوں
جس جگہ رد و بدل ہو گئے افسانے تک
باغباں فصلِ بہار آنے کا وعدہ تو قبول
اور اگر ہم نے رہے فصلِ بہار آنے تک
اور تو کیا کہیں اے شیخ تری ہمت پر
کوئی کافر ہی گیا ہو ترے میخانے تک
اے قمر شام کا وعدہ ہے وہ آتے ہوں گے
شام کہلاتی ہے تاروں کے نکل آنے تک
قمر جلالوی

ساقیا راس آ گئے ہیں تیرے میخانے کو ہم

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 52
دیکھتے ہیں رقص میں دن رات پیمانے کو ہم
ساقیا راس آ گئے ہیں تیرے میخانے کو ہم
لے کے اپنے ساتھ اک خاموش دیوانے کو ہم
جا رہے ہیں حضرتِ ناصح کو سمجھانے کو ہم
یاد رکھیں گے تمھاری بزم میں آنے کو ہم
بیٹھنے کے واسطے اغیار اٹھ جانے کو ہم
حسن مجبورِ ستم ہے عشق مجبورِ وفا
شمع کو سمجھائیں یا سمجھائیں پروانے کو ہم
رکھ کے تنکے ڈر رہے ہیں کیا کہے گا باغباں
دیکھتے ہیں آشیاں کی شاخ جھک جانے کو ہم
الجھنیں طولِ شبِ فرقت کی آگے آ گئیں
جب کبھی بیٹھے کسی کی زلف سلجھانے کو ہم
راستے میں رات کو مڈ بھیڑ ساقی کچھ نا پوچھ
مڑ رہے تھے شیخ جی مسجد کو بت خانے کو ہم
شیخ جی ہوتا ہے اپنا کام اپنے ہاتھ سے
اپنی مسجد کو سنبھالیں آپ بت خانے کو ہم
دو گھڑی کے واسطے تکلیف غیروں کو نہ دے
خود ہی بیٹھے ہیں تری محفل سے اٹھ جانے کو ہم
آپ قاتل سے مسیحا بن گئے اچھا ہوا
ورنہ اپنی زندگی سمجھے تھے مر جانے کو ہم
سن کہ شکوہ حشر میں کہتے ہوئے شرماتے نہیں
تم ستم کرتے پھرو دنیا پہ شرمانے کو ہم
اے قمر ڈر تو یہ اغیار دیکھیں گے انھیں
چاندنی شب میں بلا لائیں بلا لانے کو ہم
قمر جلالوی

ایدھر دیکھو ہم نے نہیں کی خم ابرو مر جانے پر

دیوان پنجم غزل 1612
ٹیڑھی نگاہیں کیا کرتے ہو دم بھر کے یاں آنے پر
ایدھر دیکھو ہم نے نہیں کی خم ابرو مر جانے پر
زور ہوا ہے چل صوفی ٹک تو بھی رباط کہنہ سے
ابر قبلہ بڑھتا بڑھتا آیا ہے میخانے پر
گل کھائے بے تہ بلبل نے شور قیامت کا سا کیا
دیکھ چمن میں اس بن میرے چپکے جی بہلانے پر
سر نیچے کر لیتا تھا تلوار چلاتے ہم پر وے
ریجھ گئے خوں ریزی میں اپنی اس کے پھر شرمانے پر
گالی مار کے غم پر میں نے صبر کیا خاموش رہا
رحم نہ آیا ٹک ظالم کو اس میرے غم کھانے پر
نادیدہ ہیں نام خدا کے ایسے جیسے قحط زدہ
دوڑتی ہیں کیا آنکھیں اپنی سبحے کے دانے دانے پر
حال پریشاں سن مجنوں کا کیا جلتا ہے جی اپنا
عاشق ہم بھی میر رہے ہیں اس ڈھب کے دیوانے پر
میر تقی میر

دانت سنا ہے جھمکیں ہیں اس کے موتی کے سے دانے دو

دیوان سوم غزل 1220
گردش میں وے مست آنکھیں ہیں جیسے بھرے پیمانے دو
دانت سنا ہے جھمکیں ہیں اس کے موتی کے سے دانے دو
خوب نہیں اے شمع کی غیرت ساتھ رہیں بیگانے دو
کب فرمان پہ تیرے ہوئے یہ بازو کے پروانے دو
ایسے بہانہ طلب سے ہم بھی روز گذاری کرتے ہیں
کب وعدے کی شب آئی جو ان نے کیے نہ بہانے دو
تیرستم اس دشمن جاں کا تا دو کماں پر ہو نہ کہیں
دل سے اور جگر سے اپنے ہم نے رکھیں ہیں نشانے دو
کس کو دماغ رہا ہے یاں اب ضدیں اس کی اٹھانے کا
چار پہر جب منت کریے تب وہ باتیں مانے دو
غم کھاویں یا غصہ کھاویں یوں اوقات گذرتی ہے
قسمت میں کیا خستہ دلوں کی یہ ہی لکھے تھے کھانے دو
خال سیاہ و خط سیاہ ایمان و دل کے رہزن تھے
اک مدت میں ہم نے بارے چوٹٹے یہ پہچانے دو
عشق کی صنعت مت پوچھو جوں نیچے بھوئوں کے چشم بتاں
دیکھیں جہاں محرابیں ان نے طرح کیے میخانے دو
رونے سے تو پھوٹیں آنکھیں دل کو غموں نے خراب کیا
دیکھنے قابل اس کے ہوئے ہیں اب تو یہ ویرانے دو
دشت و کوہ میں میر پھرو تم لیکن ایک ادب کے ساتھ
کوہکن و مجنوں بھی تھے اس ناحیے میں دیوانے دو
میر تقی میر

بارے سب روزے تو گذرے مجھے میخانے میں

دیوان سوم غزل 1210
اب کے ماہ رمضاں دیکھا تھا پیمانے میں
بارے سب روزے تو گذرے مجھے میخانے میں
جیسے بجلی کے چمکنے سے کسو کی سدھ جائے
بے خودی آئی اچانک ترے آجانے میں
وہ تو بالیں تئیں آیا تھا ہماری لیکن
سدھ بھی کچھ ہم کو نہ تھی جانے کے گھبرانے میں
آج سنتے ہیں کہ فردا وہ قدآرا ہو گا
دیر کچھ اتنی قیامت کے نہیں آنے میں
حق جو چاہے تو بندھی مٹھی چلا جائوں میر
مصلحت دیکھی نہ میں ہاتھ کے پھیلانے میں
میر تقی میر

دل جو یہ ہے تو ہم آرام نہیں پانے کے

دیوان دوم غزل 989
کتنے روزوں سے نہ سونے کے ہیں نے کھانے کے
دل جو یہ ہے تو ہم آرام نہیں پانے کے
ہائے کس خوبی سے آوارہ رہا ہے مجنوں
ہم بھی دیوانے ہیں اس طور کے دیوانے کے
عزم ہے جزم کہ اب کے حرکت شہر سے کر
ہوجے دل کھول کے ساکن کسو ویرانے کے
آہ کیا سہل گذر جاتے ہیں جی سے عاشق
ڈھب کوئی سیکھ لے ان لوگوں سے مرجانے کے
جمع کرتے ہو جو گیسوے پریشاں کو مگر
ہو تردد میں کوئی تازہ بلا لانے کے
کاہے کو آنکھ چھپاتے ہو یہی ہے گر چال
ایک دو دن میں نہیں ہم بھی نظر آنے کے
ہاتھ چڑھ جائیو اے شیخ کسو کے نہ کبھو
لونڈے سب تیرے خریدار ہیں میخانے کے
خاک سے چرخ تلک اب تو رکا جاتا ہے
ڈول اچھے نہیں کچھ جان کے گھبرانے کے
لے بھی اے غیرت خورشید کہیں منھ پہ نقاب
مقتضی دن نہیں اب منھ کے یہ دکھلانے کے
لالہ و گل ہی کے مصروف رہو ہو شب و روز
تم مگر میر جی سید ہو گلستانے کے
میر تقی میر

کہاں ہیں زمانے کا غم کھانے والے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 211
تباہی کے بادل ہیں لہرانے والے
کہاں ہیں زمانے کا غم کھانے والے
غم زندگی سے نظر تو ملائیں
غم عشق پر ناز فرمانے والے
زمانہ کسی کا ہوا ہے نہ ہو گا
ارے او فریب وفا کھانے والے
نظر اے فقیر سر راہ پر بھی
طواف حرم کے لئے جانے والے
چلو جام اک اور پی آئیں باقیؔ
ابھی جاگتے ہوں گے میخانے والے
باقی صدیقی

رند گھبرا کے نکل آئے ہیں میخانے سے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 203
خون اخلاص کی بو آتی ہے پیمانے سے
رند گھبرا کے نکل آئے ہیں میخانے سے
تیز ہوتا ہے جنوں اور بھی سمجھانے سے
کیا توقع کرے دنیا ترے دیوانے سے
اے ابھرتی ہوئی موجوں سے الجھنے والو
ڈوب مرنا کہیں بہتر ہے پلٹ آنے سے
کیا تری انجمن آرائیاں یاد آئی ہیں
کیوں پلٹ آئے ہیں وحشی ترے ویرانے سے
آرزوؤں کے معمے نہ ہوئے حل باقیؔ
زندگی اور الجھتی گئی سلجھانے سے
باقی صدیقی

رند اٹھ جائیں نہ میخانے سے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 202
بوئے خوں آتی ہے پیمانے سے
رند اٹھ جائیں نہ میخانے سے
کوئی دنیا سے شکایت تو نہیں
کون پوچھے ترے دیوانے سے
کس کے ہنسنے کی صدا آئی ہے
دل میں چلنے لگے پیمانے سے
زندگی کا یہ معمہ باقیؔ
اور الجھا مرے سلجھانے سے
باقی صدیقی