ٹیگ کے محفوظات: مہمان

میں میزبان تھا مجھے مہمان کر دیا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 27
اُس کی نوازشوں نے تو حیران کر دیا
میں میزبان تھا مجھے مہمان کر دیا
اک نو بہار ناز کے ہلکے سے لمس نے
میرے تو سارے جسم کو گلدان کر دیا
کل اک نگار شہر سبا نے بہ لطف خاص
مجھ سے فقیر کو بھی سلیمان کر دیا
جینے سے اس قدر بھی لگاؤ نہ تھا مجھے
تو نے تو زندگی کو، میری جان کر دیا
نا آشنائے لُطف تصادم کو کیا خبر
میں نے ہوا کی زد پہ رکھا جان کر دیا
اتنے سکوں کے دن کبھی دیکھے نہ تھے فراز
آسودگی نے مجھ کو پریشان کر دیا
احمد فراز

مجھ میں اُتر گیا ہے وہ سرطان کی طرح

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 32
دشمن ہے اور ساتھ رہے جان کی طرح
مجھ میں اُتر گیا ہے وہ سرطان کی طرح
جکڑے ہُوئے ہے تن کو مرے ، اس کی آرزو
پھیلا ہُوا ہے جال سا شریان کی طرح
دیوار و در نے جس کے لیے ہجر کاٹے تھے
آیا تھا چند روز کو ، مہمان کی طرح
دکھ کی رُتوں میں پیڑ نے تنہا سفر کیا
پتّوں کو پہلے بھیج کے سامان کی طرح
گہرے خنک اندھیرے میں اُجلے تکلّفات
گھر کی فضا بھی ہو گئی شیزان کی طرح
ڈوبا ہُوا ہے حسنِ سخن میں سکوتِ شب
تارِ ربابِ رُوح میں کلیان کی طرح
آہنگ کے جمال میں انجیل کی دُعا
نرمی میں اپنی ، سورہ ءِ رحمان کی طرح
پروین شاکر

احسان کا مزا ہے احسان کر کے بھولے

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 44
گر ہو سلوک کرنا انسان کر کے بھولے
احسان کا مزا ہے احسان کر کے بھولے
نشتر سے کم نہیں ہے کچھ چھیڑ آرزو کی
عاشق مزاج کیوں کر ارمان کر کے بھولے
وعدہ کیا پھر اُس پر تم نے قسم بھی کھائی
کیا بھول ہے انساں پیمان کر کے بھولے
وعدے کی شب رہا ہے کیا انتظار مجھ کو
آنے کا وہ یہاں تک سامان کر کے بھولے
اپنے کئے پہ نازاں ہو آدمی نہ ہر گز
طاعت ہو یا اطاعت انسان کر کے بھولے
خود ہی مجھے بلایا پھر بات بھی نہ پوچھی
وہ انجمن میں اپنی مہمان کر کے بھولے
یہ بھول بھی ہماری ہے یادگار دیکھو
دل دے کے مفت اپنا نقصان کر کے بھولے
تم سے وفا جو کی ہے ہم سے خطا ہوئی ہے
ایسا قصور کیوں کر انسان کر کے بھولے
آخر تو آدمی تھے نسیان کیوں نہ ہوتا
میری شناخت شب کو دربان کر کے بھولے
اب یاد ہے اُسی کی فریاد ہے اُسی کی
سارے جہاں کو جس کا ہم دھیان کر کے بھولے
اب عشق کا صحیفہ یوں دل سے مٹ گیا ہے
جس طرح یاد کوئی قرآن کر کے بھولے
اے داغ اپنا احساں رکھے گا یاد قاتل
وہ اور میری مشکل آسان کر کے بھولے
داغ دہلوی

مہمان

میں اس شہر مہمان اترا

تو سینے میں غم اور آنکھوں میں آنسو کے طوفاں

جدائی سے ہر چیز، حسنِ ازل تک وہ پردہ

کہ جس کے ورا حیرتِ خیرگی تھی!

جدائی سے تو بھی حزیں

اور ترا زخم مجھ سے بھی گہرا تھا خوں دادہ تر تھا!

میں مبہم سی امید تو ساتھ لایا تھا لیکن

تو اک شاخسارِ شکستہ کے مانند بے آرزو!

۔۔۔ وہ بے آرزوئی کا گہرا خلا جس کو میں نے

کبھی ذہنِ بے مایہ جانا

کبھی خوف و نفرت کے عفریت کا سایہ جانا!

تجھے یاد محبوب کا نرم راحت سے لبریز بالش

تجھے یاد کمرے کے شام و پگا، جن میں تو نے

ستاروں کے خوشوں کی آواز دیکھی

بنفشے کے رنگوں کو تُو نے چکھا

اور بہشتی پرندوں کے نغموں کو چھوتی رہی

تجھے اس کی پرواز کی آخری رات بھی یاد تھی۔۔

لذت و غم سے بے خواب لمحے

جو صدیوں سے بھرپور، صدیوں کی

پہنائی بنتے چلے جا رہے تھے!

ادھر میں مہجور، افسردہ، تنہا

وہ شبنم کا قطرہ

جو صحرا میں نازل ہو لیکن

سمندر سے ملنے کا رویا لیے ہو!

میں افسردہ، مہجور، تنہا

کہ محبوب سے بُعد کو نور کے سالہا سال سے

ناپتا آ رہا تھا،

مگر نور کے سال اِک خطِّ پیمانہ بھی تو

نہیں بن سکے تھے!

نئی سر زمیں کے نئی اجنبی،

تجھے میں نے اک خواب پیما کی آنکھوں سے دیکھا

کہ اس روز تجھ کو عیاں دیکھنا

ایسا الحاد ہوتا

کہ جس کی سزا جسم و جہاں سہہ نہ سکتے!

مگر میرے دل نے کہا

اجنبی شہر کی خلوتِ بے نہایت میں تُو بھی

کسی روز بن کر رہے گی

ستم ہائے تازہ کی خواہش کا پرتو!

زخود رفتگی سے، اشاروں سے، ترغیب وا سے

تجھے میں بلاتا رہا تھا

تُو آہستہ، خاموش بڑھنے لگی تھی

کہ یادیں ابھی تک ترے دل میں یوں گونجتی تھیں

کہ ہم گوش بر لب سہی،

سُن نہ سکتے تھے اک دوسرے کی صدائیں

مگر جب ملے ہم تو ایسے ملے

وہ تری خود نگہداریاں کام آئیں

نہ میرا تذبذب مجھے راس آیا

ہم ایسے ملے جیسے صدیوں کے مہجور

آدم کے جشنِ ولادت کے مہجور

باہم ابد میں ملیں گے!

ن م راشد

ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے

دیوان ششم غزل 1886
کافر بتوں سے مل کے مسلمان کیا رہے
ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے
شمشیر اس کی حصہ برابر کرے ہے دو
ایسی لگی ہے ایک تو ارمان کیا رہے
ہے سر کے ساتھ مال و منال آدمی کا سب
جاتا رہے جو سر ہی تو سامان کیا رہے
ویرانی بدن سے مرا جی بھی ہے اداس
منزل خراب ہووے تو مہمان کیا رہے
اہل چمن میں میں نے نہ جانا کسو کے تیں
مدت میں ہو ملاپ تو پہچان کیا رہے
حال خراب جسم ہے جی جانے کی دلیل
جب تن میں حال کچھ نہ رہے جان کیا رہے
جب سے جہاں ہے تب سے خرابی یہی ہے میر
تم دیکھ کر زمانے کو حیران کیا رہے
میر تقی میر

آہ و فغاں کے طور سے میرے لوگ مجھے پہچان گئے

دیوان سوم غزل 1253
شور کیا جو اس کی گلی میں رات کو ہیں سب جان گئے
آہ و فغاں کے طور سے میرے لوگ مجھے پہچان گئے
عہد میں اس کی یاری کے خوں دل میں ہوئے ہیں کیا کیا چائو
خاک میں آخر ساتھ ہی میرے سب میرے ارمان گئے
موت جو آئے سر پر انساں دست و پا گم کرتا ہے
دیکھتے ہی شمشیر بکف کچھ آج اسے اوسان گئے
مہلت عمر دوروزہ کتنی کریے فضولی کاہے پر
آئے جو ہیں دنیا میں ہم تو جیسے کہیں مہمان گئے
ہاتھ لگا وہ گوہر مقصد جیسا ہے معلوم ہمیں
محو طلب ہو اہل طلب سب خاک بھی یاں کی چھان گئے
کہیے سلوک انھوں کے کیا کیا چھیڑ تجاہل کی ہے نئی
نکلے تھے اس رستے سو وے جان کے بھی انجان گئے
میر نظر کی دل کی طرف کی عرش کی جانب فکر بہت
تھی جو طلب مطلوب کی ہم کو کیدھر کیدھر دھیان گئے
میر تقی میر

جان ہی جائے گی آخر کو اس ارمان کے ساتھ

دیوان سوم غزل 1244
ہے تمناے وصال اس کی مری جان کے ساتھ
جان ہی جائے گی آخر کو اس ارمان کے ساتھ
کیا فقط توڑ کے چھاتی ہی گیا تیر اس کا
لے گیا صاف مرے دل کو بھی پیکان کے ساتھ
دین و دل ہی کے رہا میرے وہ کافر درپے
خصمی قاطبہ اس کو ہے مسلمان کے ساتھ
بحر پر نہر پہ برسے ہے برابر ہی ابر
پیش ہر اک سے کریم آتے ہیں احسان کے ساتھ
سطرزلف آئی ہے اس روے مخطط پہ نظر
یہ عبارت نئی لاحق ہوئی قرآن کے ساتھ
تیر اس کا جو گذر دل سے چلا جی بھی چلا
رسم تعظیم سے ہو لیتے ہیں مہمان کے ساتھ
میں تو لڑکا نہیں جو بالے بتائو مجھ کو
یہ فریبندگی کریے کسو نادان کے ساتھ
خون مسلم کو تو واجب یہ بتاں جانے ہیں
ہوجے کافر کہ اماں یاں نہیں ایمان کے ساتھ
آدمیت سے تمھیں میر ہو کیونکر بہرہ
تم نے صحبت نہیں رکھی کسو انسان کے ساتھ
میر تقی میر

آ بوالہوس گر ذوق ہے یہ گو ہے یہ میدان ہے

دیوان اول غزل 606
اپنا سر شوریدہ تو وقف خم چوگان ہے
آ بوالہوس گر ذوق ہے یہ گو ہے یہ میدان ہے
عالم مری تقلید سے خواہش تری کرنے لگا
میں تو پشیماں ہو چکا لوگوں کو اب ارمان ہے
ہر چند بیش از بیش ہے دعویٰ تو رونے کا تجھے
پر دیدئہ نمناک بھی اے ابرتر طوفان ہے
اس بے دمی میں بھی کبھو دل بھر اٹھے ہے دم ترا
آ ٹک شتابی بے وفا اب تک تو مجھ میں جان ہے
ہر لحظہ خنجر درمیاں ہر دم زباں زیر زباں
وہ طور وہ اسلوب ہے یہ عہد یہ پیمان ہے
اس آرزوے وصل نے مشکل کیا جینا مرا
ورنہ گذرنا جان سے اتنا نہیں آسان ہے
بس بے وقاری ہوچکی گلیوں میں خواری ہوچکی
اب پاس کر ٹک میر کا دو چار دن مہمان ہے
میر تقی میر

کتنے اک اشک ہوئے جمع کہ طوفان ہوئے

دیوان اول غزل 506
جوش دل آئے بہم دیدئہ گریان ہوئے
کتنے اک اشک ہوئے جمع کہ طوفان ہوئے
کیا چھپیں شہر محبت میں ترے خانہ خراب
گھر کے گھر ان کے ہیں اس بستی میں ویران ہوئے
کس نے لی رخصت پرواز پس از مرگ نسیم
مشت پر باغ میں آتے ہی پریشان ہوئے
سبزہ و لالہ و گل ابر و ہوا ہے مے دے
ساقی ہم توبہ کے کرنے سے پشیمان ہوئے
دیکھتے پھرتے ہیں منھ سب کا سحر آئینے
جلوہ گر ہو کہ یہ تجھ بن بہت حیران ہوئے
دعوی خوش دہنی گرچہ اسے تھا لیکن
دیکھ کر منھ کو ترے گل کے تئیں کان ہوئے
جام خوں بن نہیں ملتا ہے ہمیں صبح کو آب
جب سے اس چرخ سیہ کاسہ کے مہمان ہوئے
اپنے جی ہی نے نہ چاہا کہ پئیں آب حیات
یوں تو ہم میر اسی چشمے پہ بے جان ہوئے
میر تقی میر

دکھلائی دے جہاں تک میدان ہورہا ہے

دیوان اول غزل 491
بے یار شہر دل کا ویران ہورہا ہے
دکھلائی دے جہاں تک میدان ہورہا ہے
اس منزل جہاں کے باشندے رفتنی ہیں
ہر اک کے ہاں سفر کا سامان ہورہا ہے
اچھا لگا ہے شاید آنکھوں میں یار اپنی
آئینہ دیکھ کر کچھ حیران ہورہا ہے
ٹک زیر طاق نیلی وسواس سے رہا کر
مدت سے گرنے پر یہ ایوان ہورہا ہے
گل دیکھ کر چمن میں تجھ کو کھلا ہی جا ہے
یعنی ہزار جی سے قربان ہورہا ہے
حال زبون اپنا پوشیدہ کچھ نہ تھا تو
سنتا نہ تھا کہ یہ صید بے جان ہورہا ہے
ظالم ادھر کی سدھ لے جوں شمع صبح گاہی
ایک آدھ دم کا عاشق مہمان ہورہا ہے
قرباں گہ محبت وہ جا ہے جس میں ہر سو
دشوار جان دینا آسان ہورہا ہے
ہر شب گلی میں اس کی روتے تو رہتے ہو تم
اک روز میر صاحب طوفان ہورہا ہے
میر تقی میر

نومیدیاں ہیں کتنی ہی مہمان آرزو

دیوان اول غزل 410
آنکھوں سے دل تلک ہیں چنے خوان آرزو
نومیدیاں ہیں کتنی ہی مہمان آرزو
یک چشم اس طرف بھی تو کافر کہ تو ہی ہے
دین نگاہ حسرت و ایمان آرزو
آیا تو اور رنگ رخ یاس چل بسا
جانے لگا تو چلنے لگی جان آرزو
اس مجہلے کو سیر کروں کب تلک کہ ہے
دست ہزار حسرت و دامان آرزو
پامال یاس آہ کہاں تک رہوں گا میر
سرمشق کیوں کیا تھا میں دیوان آرزو
میر تقی میر

بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا

دیوان اول غزل 108
تیرا رخ مخطط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا
گر ہے یہ بے قراری تو رہ چکا بغل میں
دو روز دل ہمارا مہمان ہے ہمارا
ہیں اس خراب دل سے مشہور شہرخوباں
اس ساری بستی میں گھر ویران ہے ہمارا
مشکل بہت ہے ہم سا پھر کوئی ہاتھ آنا
یوں مارنا تو پیارے آسان ہے ہمارا
ادریس و خضر و عیسیٰ قاتل سے ہم چھڑائے
ان خوں گرفتگاں پر احسان ہے ہمارا
ہم وے ہیں سن رکھو تم مرجائیں رک کے یک جا
کیا کوچہ کوچہ پھرنا عنوان ہے ہمارا
ہیں صید گہ کے میری صیاد کیا نہ دھڑکے
کہتے ہیں صید جو ہے بے جان ہے ہمارا
کرتے ہیں باتیں کس کس ہنگامے کی یہ زاہد
دیوان حشر گویا دیوان ہے ہمارا
خورشید رو کا پرتو آنکھوں میں روز ہے گا
یعنی کہ شرق رویہ دالان ہے ہمارا
ماہیت دوعالم کھاتی پھرے ہے غوطے
یک قطرہ خون یہ دل طوفان ہے ہمارا
نالے میں اپنے ہر شب آتے ہیں ہم بھی پنہاں
غافل تری گلی میں مندان ہے ہمارا
کیا خانداں کا اپنے تجھ سے کہیں تقدس
روح القدس اک ادنیٰ دربان ہے ہمارا
کرتا ہے کام وہ دل جو عقل میں نہ آوے
گھر کا مشیر کتنا نادان ہے ہمارا
جی جا نہ آہ ظالم تیرا ہی تو ہے سب کچھ
کس منھ سے پھر کہیں جی قربان ہے ہمارا
بنجر زمین دل کی ہے میر ملک اپنی
پر داغ سینہ مہر فرمان ہے ہمارا
میر تقی میر

وابستہ ترے مو کا پریشان رہے گا

دیوان اول غزل 9
دیکھے گا جو تجھ رو کو سو حیران رہے گا
وابستہ ترے مو کا پریشان رہے گا
وعدہ تو کیا اس سے دم صبح کا لیکن
اس دم تئیں مجھ میں بھی اگر جان رہے گا
منعم نے بنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا
پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا
چھوٹوں کہیں ایذا سے لگا ایک ہی جلاد
تاحشر مرے سر پہ یہ احسان رہے گا
چمٹے رہیں گے دشت محبت میں سر و تیغ
محشر تئیں خالی نہ یہ میدان رہے گا
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تاحشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
دل دینے کی ایسی حرکت ان نے نہیں کی
جب تک جیے گا میر پشیمان رہے گا
میر تقی میر

یاد وہ بھی نہیں آتا ہے پریشان جو ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 173
کچھ نہ کچھ بھول تو ہوجاتی ہے انسان جو ہیں
یاد وہ بھی نہیں آتا ہے پریشان جو ہیں
صرف اتنا کہ بڑی چیز ہے ملنا دل کا
ہم کوئی بات سمجھتے نہیں ناداں جو ہیں
رونقِ شہر سے مایوس نہ ہو بانوئے شہر
خاک اڑانے کو ترے بے سرو سامان جو ہیں
خیر دُنیا مری وحشت کے لیے تنگ سہی
اور یہ عرصۂ باطن میں بیابان جو ہیں
اے شبِ دربدری آنکھ میں روشن کیا ہے
کچھ ستارے کہ سرِ مطلعِ امکان جو ہیں
اگلے موسم میں ہماری کوئی پہچان تو ہو
ان کو محفوظ رکھیں تارِ گریبان جو ہیں
رات کی رات فقیروں کی بھی دلداری کر
دائم آباد زمیں، ہم ترے مہمان جو ہیں
عرفان صدیقی

میرے لہو نے سب سر و سامان کر دیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 64
زرتاب ترا قریۂ ویران کر دیا
میرے لہو نے سب سر و سامان کر دیا
اس بار یوں ہوا کہ اندھیروں کی فوج کو
دو چار جگنوؤں نے پریشان کر دیا
کمزور طائروں کو لہو کی ترنگ نے
شاہیں بچوں سے دست و گریبان کر دیا
دست ستم کا دل پہ کوئی بس نہ چل سکا
تھوڑا سا مریے جسم کا نقصان کر دیا
سینے پہ نیزہ، پشت پہ دیوار سنگ تھی
تنگ آکے ہم نے جنگ کا اعلان کر دیا
وہ آفتیں پڑیں کہ خدا یاد آگیا
ان حادثوں نے مجھ کو مسلمان کر دیا
وہ درد ہے کہ دل سے نکلتا نہیں سو آج
ہم نے سپرد خانہ بہ مہمان کر دیا
عرفانؔ ، بزم بادہ و گل تھی زمین شعر
تم نے تو اس کو حشر کا میدان کر دیا
عرفان صدیقی

ایک بزنس جس میں بس نقصان ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 593
اچھے بزنس مین کی پہچان ہے
ایک بزنس جس میں بس نقصان ہے
دوڑتی پھرتی ہوئی بچی کے پاس
دور تک اک گھاس کا میدان ہے
صبح تازہ کی اذاں کے واسطے
میرے کمرے میں بھی روشن دان ہے
پتھروں سے مل نہ پتھر کی طرح
سنگ میں بھی روح کا امکان ہے
چند ہیں ابرِ رواں کی چھتریاں
باقی خالی دھوپ کادالان ہے
اتنا ہے پاکیزگی سے رابطہ
میرے گھر کا نام پاکستان ہے
موت آفاقی حقیقت ہے مگر
زندگی پر بھی مرا ایمان ہے
جتنی ممکن ہے جگہ دامن میں دے
روشنی منصور کی مہمان ہے
منصور آفاق

وحشت میں مبتلا ہوا انسان کس لئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 498
ہر لمحہ تازہ قتل کا امکان کس لئے
وحشت میں مبتلا ہوا انسان کس لئے
میں سوچتا ہوں دیکھ کے اڑتے ہوئے پرند
لایا ہوں ہفتہ بھر کا یہ سامان کس لئے
شاخیں لدی ہوئی ہیں گلابوں سے غیر کی
خالی ہے میری ذات کا گلدان کس لئے
جنت نما ہیں اہل ستم کی ریاستیں
اپنے دیارِ زندگی ویران، کس لئے
رائج جہاں میں کیوں ہوئی جنگل کی شہریت
کچھ بھیڑیاصفت ہوئے سلطان کس لئے
کیا جانوں کس نے پیٹھ لگائی تھی اس کے ساتھ
پھیلا ہوا پیڑ میں سرطان کس لئے
آخر کہاں گئی ہیں وہ کرنیں وہ گرم دھوپ
ویراں پڑا ہوا ہے یہ دالان کس لئے
آسیب پھر رہا ہے کوئی میرے ساتھ ساتھ
ہونے لگا ہے روزہی نقصان کس لئے
جاتے نہیں ہیں لوٹ کے اپنے ستاروں پر
منصور کائنات کے مہمان کس لئے
منصور آفاق

کیا جانے کس اور گئے ہیں خوابوں کے مہمان

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 11
نکھری صبحیں ، بکھری شامیں ، راتیں ہیں سنسان
کیا جانے کس اور گئے ہیں خوابوں کے مہمان
سرمایہ ہیں تیرے سپنے ، حاصل تیرے خواب
تیری یاد کا چہرہ میری ذات کی ہے پہچان
کاش کوئی آ،تاپے اپنی نرم و ملائم شام
روح میں جلتا دیکھوں دن بھر غم کا آتش دان
کس کا چہرہ جنس زدہ ہے ، کس کا جسم غلیظ
کون زمیں کی پیٹھ پہ پھوڑا تُو یا پاکستان
تیس برس کی اک لڑکی کا جیسے کومل جسم
دوبالشت جب ہوجائے منصور سنہری دھان
منصور آفاق

مہمان

پہلاں کاں دی کوہجی واج نوں

سن کے وی میں خوش ہوندا ساں

پر ہن انج اے

بنے بنیرے کاں بولے تے

ڈرجاندا واں

کیوں جے میرے گھر دا راشن

میرے گھر دے

سب جّیاں توں وی کمتی اے

بھاں توں

میرے دکھ ونڈا ون لئی اوہ آوے

میں مہمان نوں

کیکن ’’جی آیاں نوں‘‘ آکھاں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام)