دیوان ششم غزل 1915
اب دشت عشق میں ہیں بتنگ آئے جان سے
آنکھیں ہماری لگ رہی ہیں آسمان سے
پڑتا ہے پھول برق سے گلزار کی طرف
دھڑکے ہے جی قفس میں غم آشیان سے
یک دست جوں صداے جرس بیکسی کے ساتھ
میں ہر طرف گیا ہوں جدا کاروان سے
تم کو تو التفات نہیں حال زار پر
اب ہم ملیں گے اور کسو مہربان سے
تم ہم سے صرفہ ایک نگہ کا کیا کیے
اغماض ہم کو اپنے ہے جی کے زیان سے
جاتے ہیں اس کی اور تو عشاق تیر سے
قامت خمیدہ ان کے اگر ہیں کمان سے
دلکش قد اس کا آنکھوں تلے ہی پھرا کیا
صورت گئی نہ اس کی ہمارے دھیان سے
آتا نہیں خیال میں خوش رو کوئی کبھو
تو مار ڈالیو نہ مجھے اس گمان سے
آنکھوں میں آ کے دل سے نہ ٹھہرا تو ایک دم
جاتا ہے کوئی دید کے ایسے مکان سے
دیں گالیاں انھیں نے وہی بے دماغ ہیں
میں میر کچھ کہا نہیں اپنی زبان سے
میر تقی میر
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔