ٹیگ کے محفوظات: مچلتا

کون اس راستے سے گزرا ہے؟

پتا پتا شجر سے لپٹا ہے
کون اس راستے سے گزرا ہے؟
آسماں بھی سراب ہی نکلا
بحر میں آب ہے کہ صحرا ہے
جانے کب اندمال ہو اس کا
دیکھنے میں تو زخم گہرا ہے
کوئی تو ہے جو کائنات مری
بےسبب روز و شب گھماتا ہے
دل کی نیّا میں جو لگی ہے آگ
اچھی لگتی ہے، کیوں بجھاتا ہے؟
میں نہ دیکھوں تو ہے ادھورا سا
وہ فلک پر جو ایک تارا ہے
کوئی دستک سنائی دی ہے مجھے
دیکھنا کون در پہ آیا ہے
اس طرح اضطرار سے آخر
کون میرے سوا بہلتا ہے؟
لا کے چھوڑیں گی ہی بہار یہاں
شور چڑیوں نے یوں مچایا ہے
مٹ نہ پائیں گی اس کی ریکھائیں
اس طرح کاہے، ہاتھ مَلتا ہے؟
خواب میں روز آ کے اک پنچھی
رات پچھلے پہر جگاتا ہے
یاد کی گلیوں میں کوئی راہی
کبھی گرتا، کبھی سنبھلتا ہے
آسماں کے توے پہ اک سورج
روز آتا ہے روز جلتا ہے
چاند جوبن پہ جب بھی آ جائے
ناؤ میری ہی کیوں ڈبوتا ہے؟
وقت ہے اژدھا کوئی شاید
کینچلی روز اک بدلتا ہے
صبح دم ٹہنیوں پہ شبنم کے
روز موتی کوئی پروتا ہے
روز جب آفتاب ڈھل جائے
دل مرا جانے کیوں مچلتا ہے
میں نے جو سوچا، جو کہا، ہے برا
تم نے جو بھی کہا وہ اچھا ہے
پیڑ وہ ہی رہے ہرا ہر دم
روز جو دھوپ میں جھلستا ہے
بھر لو آنکھوں میں اب افق یاؔور
اس سے آگے تو بس اندھیرا ہے
یاور ماجد

خود سے ملتا ہوں تو پھر کھُل کے برستا ہوں میں

انجمن ہو تو بہت بولتا ہنستا ہوں میں
خود سے ملتا ہوں تو پھر کھُل کے برستا ہوں میں
دیکھتا رہتا ہوں ملنے کو تَرَستا ہوں میں
یوں گذر جاتے ہو جیسے کوئی رَستا ہوں میں
خواہشِ وصل ہو پہنے ہُوئے پیراہنِ عشق
اِس کو اِخلاص کی تَضحیک سمجھتا ہوں میں
بوالہوس چیَن سے رہتے ہیں خزاں ہو کہ بہار
بوئے گل، بادِ صبا، سب کو تَرَستا ہوں میں
حُسن نے لمس کو معراجِ محبت جانا
ایسے معیار پہ کب پورا اُترتا ہوں میں
عشق دائم ہے اگر وصل کا پابند نہ ہو
جھومتا اَور ہے دل جتنا تڑپتا ہوں میں
حُسن کو ساری روایات سے باغی کردوں
اِس کی تدبیر کوئی دیکھئے کرتا ہوں میں
وہ تو یہ کہیے جنوں میرا مرے کام آیا
پھر بہلتا نہیں ضامنؔ جو مچلتا ہوں میں
ضامن جعفری

تجھ سے کچھ اور نہ اے میرے مسیحا! مانگوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
صحنِ امروز میں بچپن کا اُجالا مانگوں
تجھ سے کچھ اور نہ اے میرے مسیحا! مانگوں
بہرِ عرفان، عطا زیست مکّرر ہو اگر
میں جو مانگوں تو فقط دیدۂ بینا مانگوں
ہونٹ مانگوں وہ تپش جن سے، سخن کی جھلکے
اور درونِ رگِ جاں، خون مچلتا مانگوں
حرفِ حق منہ پہ جو ہے، اُس کی پذیرائی کو
پیشِ فرعون، خدا سے یدِ بیضا مانگوں
جس نے دی عمر مجھے، وام ہی، چاہے دی ہے
وہ سخی مدِّ مقابل ہو تو کیا کیا مانگوں
جو بھی دیکھے اُسے صنّاع مرا، یاد آئے
میں سرِ خاک بس ایسا قدِ بالا مانگوں
جس پہ ٹھہرے نہ کوئی چشمِ تماشا ماجدؔ
لفظ در لفظ وہ معنی کا اُجالا مانگوں
ماجد صدیقی