ٹیگ کے محفوظات: منزل
اک چراغِ رہ گزر ہے جو مری منزل میں ہے
اللہ کو اگر منظور نہ ہو، ہر مقصد باطل ہوتا ہے
کھائے جاتی ہے مگر کیوں دوریِ منزل مجھے
شایانِ شان مَدِّ مُقابِل تلاش کر
اَب ہَم رَہیں گے کوچہِ قاتل کے آس پاس
وہ مثلِ آئینہ ہیں مقابل سے بے نیاز
شعورِ ذات کی منزل کے انتظار میں ہیں
گُذرا ہے کوئی ٹُوٹا ہُوا دل لئے ہُوئے
نگاہِ شوق کس منزل سے گزری
گھر سے بے گھر بھی ہوئے اور نہ ملی منزل بھی
ہونٹ اچھے لگے ہمیں سِل کے
کہیں ڈوبی ہوئی کشتی ملا کرتی ہے ساحل سے
ساحل کی طرف کشتی نہ سہی کشتی کی طرف ساحل کر دے
دل کو ہے درد ،درد کو ہے دل لیئے ہوئے
قسم کھائی ہوئی توبہ بڑی مشکل سے ٹوٹے گی
نہ جب مشکل سمجھتے تھے نہ اب شکل سمجھتے ہیں
جاؤ بس اب مل چکے کشتی سے تم ساحل سے ہم
راہبر تو لوٹ لے شکوہ کریں منزل سے ہم
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
یوں بے دم ہے اب پہلو میں جوں صید بسمل ہے دل
ایسے ناداں دلربا کے ملنے کا حاصل ہے کیا
یہ دوانہ بائولا عاقل ہے میاں
میں کشتہ ہوں انداز قاتل کا اپنے
ّسینکڑوں ہم خوں گرفتہ ہیں وہ قاتل ایک ہے
ہاتھ پہنچا نہ پاے قاتل تک
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
منزل
اس ایک بات سے انکار ہو نہیں سکتا
کہ ہم نے اپنے لہو سے، بساطِ عالم پر
لکیر کھینچی ہے جس سلطنت کی، اس کا وجود
ہے ایشیا کے شبستاں میں صبحِ نو کی نمود!
یہ سب بجا ہے کہ ہم جن جگر کے ٹکڑوں کو
بہ شہر و قریہ، بہ دشت و چمن، بہ کوچہ و بام
بھڑکتی آگ میں بہتے لہو میں چھوڑ آئے
وہ روحیں جن کے سیہ پوش، ماتمی سائے
ہمارے ہنستے ہوئے پیکروں سے لپٹے ہیں
وہ قافلے کہ جنھیں مہلتِ سفر نہ ملی
انہی کے سڑتے ہوئے لوتھڑوں کی ہونکتی بو
انہی کی ڈوبتی فریادیں، چیختے آنسو
ہمارے محلوں کے نغمے، ہمارے باغوں کے پھول!
مگر یہ پھول، یہ نغمے، یہ نکہتوں کے ہجوم
سحر سحر کو اگر مشکبار کر نہ سکے
نفَس نفَس کو امینِ بہار کر نہ سکے
وہ جن کے واسطے یہ گلستاں سجایا گیا
گر اس طرح تہی داماں، تہی سَبَد ہی رہے
تو سوچ لو کہ یہ نازک، لطیف پرتوِ نور
یہ لڑکھڑاتی ہواؤں میں ٹھہرا ٹھہرا غرور
ہزار ساعتِ بےبرگ کے بیاباں میں
یہ اک امنگوں بھری سانس!
اس کا مستقبل؟
ہماری زندگیوں سے اک اک تڑپ لے کر
پروئے ہیں جو فلک نے، بہ سلکِ شام و سحر
گلوئے غم کے لیے، چہرۂ طرب کے لیے
سدا بہار ارادوں کے ہار
ان کا مآل؟
یہی سوال ہے رازِ غمِ زمان و زمیں!
حضور! ان کا جبیں پر شکن جواب نہیں