ٹیگ کے محفوظات: ملے

رُوپ کی مایا جن کو کر کر لمبے ہات مِلے

کاسہِ سر کو ان سے کچھ پتھر خیرات مِلے
رُوپ کی مایا جن کو کر کر لمبے ہات مِلے
یُوں سِمٹا بیٹھا ہُوں اندھیارے کی بانہوں میں
بھولے بھٹکے شاید تیری زُلف کی رات مِلے
کاش اک ایسی صُبح بھی آئے ہجر کی رات کے بعد
جب میں سو کر اُٹھوں ہات میں تیرا ہات مِلے
شہرِسمن کو چھوڑا جن کی یاد سے گھبرا کر
بَن میں وُہ قاتل لمحے گرد کی صورت سات ملیِ
تم سے جیالے انساں ہم نے کم دیکھے ہیں ، شکیبؔ
اس کوچے میں یوں تو اور بہت حضرات ملے
شکیب جلالی

کس درجہ سست گام ہیں پھولوں کے قافلے

بعد از خزاں بھی خشک بگولوں کے سلسلے
کس درجہ سست گام ہیں پھولوں کے قافلے
کیوں کر بڑھائیں ربط کسی اجنبی کے ساتھ
ساتھی تھے عمر بھر کے جو غیروں سے جا ملے
جو کائناتِ درد سے مانوس ہی نہیں
وہ کر رہے ہیں پیار کی دنیا کے فیصلے
اے پیکرِ غرور کہ ہم بھی ہیں بااصول
طے ہوسکیں گے کیا یہ پُراَسرار فاصلے
ایثار کے دیار سے نفرت کے شہر تک
ہیں کس قدر طویل محبت کے سلسلے
افسانہِ بہار پھر ان کی زبان سے
خوشبو اُڑی، نسیم چلی، پھول سے کھلے
گہنا گئے بوقتِ سَحر دل کے وَلولے
کیا کچھ نہ حال ہو گا اُمنگوں کا، دن ڈھلے
تیری شبیہ کا ہے خلاؤں میں رقص پھر
محرابِ زندگی میں ہزاروں دیے جلے
اُس کو یقین کیا دلِ اخلاص کِیش کا
مایوسیوں کی گود میں جو زندگی پَلے
آساں بنا رہا تھا جنھیں احتیاط سے
دشوار ہو گئے وہی نازک سے مرحلے
آئے تھے وہ وفا کی نمایش کے واسطے
میرے تعلّقات کو آلودہ کر چلے
مسمار ہو سکے نہ گھروندے وفاؤں کے
آتے رہے پیار کی بستی میں زلزلے
شعلوں کے رنگ میں، کہیں شبنم کے روپ میں
منظوم ہیں، شکیبؔ، مرے دل کے وَلولے
شکیب جلالی

جس سے ملے ہم دل سے مِلے

منھ پہ کیے سب شِکوے گِلے
جس سے ملے ہم دل سے مِلے
دُکھ میں دامن چھوڑ دیا
سُکھ میں ساتھی آن مِلے
چارہ گروں کی بات نہ کر
زخم، نہ سِلنے تھے نہ سِلے
حُسنِ تکلّم، لُطفِ بیاں
کلیاں چٹکیں، پھول کِھلے
وہ سمجھیں یا ہم جانیں
بات کہی اور لَب نہ ہلے
غم کی شدّت میں بھی، شکیبؔ
لوگوں سے ہم ہنس کے ملے
شکیب جلالی

لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر

دُھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر
لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر
یہ کالے کوس کی پرہول رات ہے ساتھی
کہیں اماں نہ ملے گی تجھے کنارے پر
صدائیں آتی ہیں اُجڑے ہوئے جزیروں سے
کہ آج رات نہ کوئی رہے کنارے پر
یہاں تک آئے ہیں چھینٹے لہو کی بارش کے
وہ رن پڑا ہے کہیں دُوسرے کنارے پر
یہ ڈھونڈتا ہے کسے چاند سبز جھیلوں میں
پکارتی ہے ہوا اب کسے کنارے پر
اس اِنقلاب کی شاید خبر نہ تھی اُن کو
جو ناؤ باندھ کے سوتے رہے کنارے پر
ہیں گھات میں ابھی کچھ قافلے لٹیروں کے
ابھی جمائے رہو مورچے کنارے پر
بچھڑ گئے تھے جو طوفاں کی رات میں ناصر
سنا ہے اُن میں سے کچھ آ ملے کنارے پر
ناصر کاظمی

بہاروں میں اب کی نئے گل کھلے

نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے
بہاروں میں اب کی نئے گل کھلے
نہ جانے کہاں لے گئے قافلے
مسافر بڑی دور جا کر ملے
وہی وقت کی قید ہے درمیاں
وہی منزلیں اور وہی فاصلے
جہاں کوئی بستی نظر آ گئی
وہیں رُک گئے اجنبی قافلے
تمھیں دل گرفتہ نہیں دوستو
ہمیں بھی زمانے سے ہیں کچھ گلے
ہمیں بھی کریں یاد اہلِ چمن
چمن میں اگر کوئی غنچہ کھلے
ابھی اور کتنی ہے میعادِ غم
کہاں تک ملیں گے وفا کے صلے
ناصر کاظمی

ذرا ملال نہ ہو تُو نہ گَر کہے کچھ بھی

ہمارے ساتھ زمانہ کیا کرے کچھ بھی
ذرا ملال نہ ہو تُو نہ گَر کہے کچھ بھی
وہ اور وقت تھے جب انتخاب ممکن تھا
کریں گے اہلِ ہُنر کام اب ملے کچھ بھی
نہیں ہے وقت مِرے پاس ہر کسی کے لیے
مری بَلا سے وہ ہوتے ہوں آپ کے کچھ بھی
جو میرا حق ہے مجھے وہ تو دیجیے صاحب
طلب کیا نہیں میں نے جناب سے کچھ بھی
ذرا سی بات پہ تیرا یہ حال ہے باصرِؔ
ابھی تو میں نے بتایا نہیں تجھے کچھ بھی
باصر کاظمی

پگھلے بدن کے ساتھ مجھے تُو کہے گا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
گھِر کر بہ سحرِ قُرب بھلا اب کھنچے گا کیا
پگھلے بدن کے ساتھ مجھے تُو کہے گا کیا
خاموش کیوں ہے دے بھی مُجھے اِذنِ سوختن
شُعلہ نظر سے اور بھی کوئی اُٹھے گا کیا
یہ ولولہ مرا کہ ضیا بار تُجھ پہ ہَے
سُورج ہے گر تو میرے اُفق سے ڈھلے گا کیا
خواہش کا چاند آ ہی گیا جب سرِ اُفق
باقی کوئی حجاب بھلا اب رہے گا کیا
یہ لطفِ دید، یہ ترا پیکر الاؤ سا
منظر نگاہ پر کوئی ایسا کھُلے گا کیا
کرتا ہے کیُوں سخن میں عبث نقش کاریاں
ماجدؔ صلہ بھی کوئی تُجھے کچھ ملے گا کیا
ماجد صدیقی

شکستِ خواب کے اب مجھ میں حوصلے بھی نہیں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 66
بجا کہ آنکھوں میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں
شکستِ خواب کے اب مجھ میں حوصلے بھی نہیں
نہیں نہیں ! یہ خبر دشمنوں نے دی ہو گی
وہ آئے! آکے چلے بھی گئے، ملے بھی نہیں
یہ کون لوگ اندھیروں کی بات کرتے ہیں
ابھی تو چاند تری یاد کے ڈھلے بھی نہیں
ابھی سے میرے رفوگر کے ہاتھ تھکنے لگے
ابھی تو چاک مرے زخم کے سِلے بھی نہیں
خفا اگرچہ ہمیشہ ہُوئے مگر اب
وہ برہمی ہے کہ ہم سے انہیں گِلے بھی نہیں
پروین شاکر

اس کو ڈھونڈیں تو وہ ملے بھی کہاں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 88
خود سے ہم اک نفس ہلے بھی کہاں
اس کو ڈھونڈیں تو وہ ملے بھی کہاں
غم نہ ہوتا جو کھل کے مرجھاتے
غم تو یہ ہے کہ ہم کھلے بھی کہاں
خوش ہو سینے کی ان خراشوں پر
پھر تنفس کے یہ صلے بھی کہاں
آگہی نے کیا ہو چاک جسے
وہ گریباں بھلا سلے بھی کہاں
اب تامل نہ کر دلِ خود کام
روٹھ لے ، پھر یہ سلسلے بھی کہاں
آو، آپس میں کچھ گلے کر لیں
ورنہ یوں ہے کہ پھر گلے بھی کہاں
جون ایلیا

ہجراں میں اس کے ہم کو بہتیرے مشغلے ہیں

دیوان سوم غزل 1206
روتے ہیں نالہ کش ہیں یا رات دن جلے ہیں
ہجراں میں اس کے ہم کو بہتیرے مشغلے ہیں
جوں دود عمر گذری سب پیچ و تاب ہی میں
اتنا ستا نہ ظالم ہم بھی جلے بلے ہیں
مرنا ہے خاک ہونا ہو خاک اڑتے پھرنا
اس راہ میں ابھی تو درپیش مرحلے ہیں
کس دن چمن میں یارب ہو گی صبا گل افشاں
کتنے شکستہ پر ہم دیوار کے تلے ہیں
جب یاد آگئے ہیں پاے حنائی اس کے
افسوس سے تب اپنے ہم ہاتھ ہی ملے ہیں
تھا جو مزاج اپنا سو تو کہاں رہا ہے
پر نسبت اگلی تو بھی ہم ان دنوں بھلے ہیں
کچھ وہ جو کھنچ رہا ہے ہم کانپتے ہیں ڈر سے
یاں جوں کمان گھر میں ہر وقت زلزلے ہیں
اک شور ہی رہا ہے دیوان پن میں اپنے
زنجیر سے ہلے ہیں گر کچھ بھی ہم ہلے ہیں
پست و بلند دیکھیں کیا میر پیش آئے
اس دشت سے ہم اب تو سیلاب سے چلے ہیں
میر تقی میر

عید سی ہوجائے اپنے ہاں لگے جو تو گلے

دیوان دوم غزل 995
جیسے اندوہ محرم عشق کب تک دل ملے
عید سی ہوجائے اپنے ہاں لگے جو تو گلے
دین و مذہب عاشقوں کا قابل پرسش نہیں
یہ ادھر سجدہ کریں ابرو جدھر اس کی ہلے
یہ نہیں میں جانتا نسبت ہے کیا آپس میں لیک
آنکھیں ہوجاتی ہیں ٹھنڈی اس کے تلووں سے ملے
ہائے کس حسرت سے شبنم نے سحر رو کر کہا
خوش رہو اے ساکنان باغ اب تو ہم چلے
مردمان شہر خوبی پر کریں کیا دل کو عرض
ایسی جنس ناروا کو مفت کوئی واں نہ لے
کل جو ہم کو یاد آیا باغ میں قد یار کا
خوب روئے ہر نہال سبز کے سائے تلے
جمع کر خاطر مرے جینے سے مجھ کو خوب ہے
جی بچا تب جانیے جب سر سے یہ کلول ٹلے
گرچہ سب ہیں گے مہیاے طریق نیستی
طے بہت دشوار کی یہ رہگذر ہم نے ولے
ہر قدم پر جی سے جانا ہر دم اوپر بے دمی
لمحہ لمحہ آگے تھے کیا کیا قیامت مرحلے
جلنے کو جلتے ہیں سب کے اندرونے لیک میر
جب کسو کی اس وتیرے سے کہیں چھاتی جلے
میر تقی میر

رہتا ہے آب دیدہ یاں تا گلے ہمیشہ

دیوان دوم غزل 940
پھرتی ہیں اس کی آنکھیں آنکھوں تلے ہمیشہ
رہتا ہے آب دیدہ یاں تا گلے ہمیشہ
تصدیع ایک دو دن ہووے تو کوئی کھینچے
تڑپے جگر ہمیشہ چھاتی جلے ہمیشہ
اک اس مغل بچے کو وعدہ وفا نہ کرنا
کچھ جا کہیں تو کرنا آرے بلے ہمیشہ
کب تک وفا کرے گا یوں حوصلہ ہمارا
دل پیسے درد اکثر غم جی ملے ہمیشہ
اس جسم خاکی سے ہم مٹی میں اٹ رہے ہیں
یوں خاک میں کہاں تک کوئی رلے ہمیشہ
آئندہ و روندہ باد سحر کبوتر
قاصد نیا ادھر کو کب تک چلے ہمیشہ
مسجد میں چل کے ملیے جمعے کے دن بنے تو
ہوتے ہیں میر صاحب واں دن ڈھلے ہمیشہ
میر تقی میر

چھاتیاں سلگیں ہیں ایسی کہ جلے جاتے ہیں

دیوان دوم غزل 906
کیا کہیں آتش ہجراں سے گلے جاتے ہیں
چھاتیاں سلگیں ہیں ایسی کہ جلے جاتے ہیں
گوہرگوش کسو کا نہیں جی سے جاتا
آنسو موتی سے مرے منھ پہ ڈھلے جاتے ہیں
یہی مسدود ہے کچھ راہ وفا ورنہ بہم
سب کہیں نامہ و پیغام چلے جاتے ہیں
بارحرمان و گل و داغ نہیں اپنے ساتھ
شجر باغ وفا پھولے پھلے جاتے ہیں
حیرت عشق میں تصویر سے رفتہ ہی رہے
ایسے جاتے ہیں جو ہم بھی تو بھلے جاتے ہیں
ہجر کی کوفت جو کھینچے ہیں انھیں سے پوچھو
دل دیے جاتے ہیں جی اپنے ملے جاتے ہیں
یاد قد میں ترے آنکھوں سے بہیں ہیں جوئیں
گر کسو باغ میں ہم سرو تلے جاتے ہیں
دیکھیں پیش آوے ہے کیا عشق میں اب تو جوں سیل
ہم بھی اس راہ میں سر گاڑے چلے جاتے ہیں
پُرغباری جہاں سے نہیں سدھ میر ہمیں
گرد اتنی ہے کہ مٹی میں رلے جاتے ہیں
میر تقی میر

عرصہ گزر گیا ہے کسی سے ملے ہوئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 504
شاخِ بدن پہ کوئی تعلق کھلے ہوئے
عرصہ گزر گیا ہے کسی سے ملے ہوئے
میں کیا کروں کہ مجلسِ دل میں تمام رات
تیری شکایتیں ہوئیں تیرے گلے ہوئے
میں نے مقامِ طور پہ دیکھا خود اپنا نور
صبحِ شعورِ ذات کے کچھ سلسلے ہوئے
پہلے ہی کم تھیں قیس پہ صحرا کی وسعتیں
ہجراں کے مدرسے میں نئے داخلے ہوئے
منصور دو دلوں کی قرابت کے باوجود
اپنے گھروں کے بیچ بڑے فاصلے ہوئے
منصور آفاق

تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 403
کسی کے جسم سے مل کر کبھی بہے نہ کہیں
تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں
عجیب رابطہ اپنے وجود رکھتے تھے
نکل کے تجھ سے تو خود میں بھی ہم رہے نہ کہیں
اسے تو پردے کے پیچھے بھی خوف ہے کہ مری
نظر نقاب پہ چہرہ لکیر لے نہ کہیں
بس اس خیال سے منزل پہن لی پاؤں نے
ہمارے غم میں زمانہ سفر کرے نہ کہیں
تمام عمر نہ دیکھا بری نظر سے اسے
یہ سوچتے ہوئے دنیا برا کہے نہ کہیں
اے آسمان! ذرا دیکھنا کہ دوزخ میں
گرے پڑے ہوں زمیں کے مراسلے نہ کہیں
ڈرا دیا کسی خودکُش خیال نے اتنا
ٹکٹ خرید رکھے تھے مگر گئے نہ کہیں
کئی دنوں سے اداسی ہے اپنے پہلو میں
ہمارے بیچ چلے آئیں دوسرے نہ کہیں
ہر اک مقام پہ بہکی ضرور ہیں نظریں
تری گلی کے علاوہ قدم رکے نہ کہیں
ہم اپنی اپنی جگہ پر سہی اکائی ہیں
ندی کے دونوں کنارے کبھی ملے نہ کہیں
ترے جمال پہ حق ہی نہیں تھا سو ہم نے
کیے گلاب کے پھولوں پہ تبصرے نہ کہیں
کبھی کبھار ملاقات خود سے ہوتی ہے
تعلقات کے پہلے سے سلسلے نہ کہیں
ہر ایک آنکھ ہمیں کھینچتی تھی پانی میں
بھلا یہ کیسے تھا ممکن کہ ڈوبتے نہ کہیں
اداس چاندنی ہم سے کہیں زیادہ تھی
کھلے دریچے ترے انتظار کے نہ کہیں
بس ایک زندہ سخن کی ہمیں تمنا ہے
بنائے ہم نے کتابوں کے مقبرے نہ کہیں
بدن کو راس کچھ اتنی ہے بے گھری اپنی
کئی رہائشیں آئیں مگر رہے نہ کہیں
دھواں اتار بدن میں حشیش کا منصور
یہ غم کا بھیڑیا سینہ ہی چیر دے نہ کہیں
منصور آفاق

کچھ پرانے ہیں کچھ نئے ہیں سانپ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 244
آستیں سے نکل پڑے ہیں سانپ
کچھ پرانے ہیں کچھ نئے ہیں سانپ
آ رہی ہیں جو اونی بھیڑیں ہیں
جا رہے ہیں جو وہ راستے ہیں سانپ
ہم لکیروں کو پیٹنے والے
جا رہے ہیں جہاں گئے ہیں سانپ
آسماں سے پہن کے تیرا روپ
دیکھ قوسِ قزح گرے ہیں سانپ
میرے پہلو میں جو پنپتے ہیں
یہ ترے انتظار کے ہیں سانپ
چل رہے ہیں سنپولیے ہمراہ
ہم بھی محسوس ہو رہے ہیں سانپ
شہر میں محترم نہیں ہم لوگ
صاحبِ عز و جہ ہوئے ہیں سانپ
اپنے جیون کی شاخِ جنت پر
موسم آیا تو کھل اٹھے ہیں سانپ
لالہ و گل کے روپ میں منصور
زندگی میں کئی ملے ہیں سانپ
منصور آفاق

محبت کے ٹھہرے ہوئے سلسلے چل

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 212
بڑی سست رفتاریوں سے بھلے چل
محبت کے ٹھہرے ہوئے سلسلے چل
وہاں گھر ہے دریا جہاں ختم ہو گا
چلے چل کنارے کنارے چلے چل
خدا جانے کب پھر ملاقات ہو گی
ٹھہر مجھ سے جاتے ہوئے تو ملے چل
میں تیرے سہارے چلا جا رہا ہوں
ذرا اور ٹوٹے ہوئے حوصلے چل
نئے ساحلوں کے مسائل بڑے ہیں
تُو پچھلی زمیں کی دعا ساتھ لے چل
اکیلا نہ منصور رہ کیرواں میں
محبت کے چلنے لگے قافلے چل
منصور آفاق