خواہشوں کی ہوا سنبھلنے دے
دشتِ حسرت مجھے نکلنے دے
یہ لکیریں ہی میری مجرم ہیں
اے گئے وقت ہاتھ ملنے دے
میری صحرا نوردیوں کا جنوں
میرے ہمراہ لُو میں جلنے دے
یوں نہ غنچوں کو توڑ شاخوں سے
خواہشوں کو دلوں میں پلنے دے
چند لمحوں کا ہے سفر یاؔور
دو قدم مجھ کو ساتھ چلنے دے
یاور ماجد