ٹیگ کے محفوظات: ملنا

صیّاد کو گلشن سے نکلنا ہی پڑے گا

طاقت کے توازن کو بدلنا ہی پڑے گا
صیّاد کو گلشن سے نکلنا ہی پڑے گا
یہ راستہ منزل کو تَو جاتا ہی نہیں ہے
اب اَور کسی راہ پہ چلنا ہی پڑے گا
یہ آگ لگائی بھی تَو ہے آپ نے صاحب
اِس آگ میں اب آپ کو جلنا ہی پڑے گا
ہاں تیری تمازت سے بہت تنگ ہیں ہم لوگ
خورشیدِ تظلّم! تجھے ڈھَلنا ہی پڑے گا
سیلابِ لہو چاہیے تطہیرِ چمن کو
اب خون کے قطروں کو مچلنا ہی پڑے گا
وہ لوگ جو خوں پی کے تنومند ہُوئے ہیں
اُن لوگوں کو اب خون اُگلنا ہی پڑے گا
یہ زہرِ رعونت جو تری جان کا ہے روگ
اُگلا نہیں جاتا تَو نگلنا ہی پڑے گا
منزل کی طرف پُشت اگر کر کے چلیں گے
ضامنؔ! کفِ افسوس تَو مَلنا ہی پڑے گا
ضامن جعفری

جو ہاتھ دل پہ تھا یدِ بیضا نہیں ہُوا

اِتنا بھی تجھ سے سوزِ تمنّا نہیں ہُوا
جو ہاتھ دل پہ تھا یدِ بیضا نہیں ہُوا
بخشی وفا کو اُس نے یہ کہہ کر حیاتِ نَو
حیرت ہے کوئی زخم پُرانا نہیں ہُوا
تنہائی بولنے لگی، تم جب چلے گئے
وہ انہماک تھا کہ میں تنہا نہیں ہُوا
ہم بھی ملے تھے دل سے، جب اُن سے ملا تھا دل
لیکن پھر اُس کے بعد سے ملنا نہیں ہُوا
ایوانِ دل میں گونج رہا ہے سکوتِ مرگ
اِک عرصۂ دراز سے کھٹکا نہیں ہُوا
کیوں قَیسِ عامری اُنہَیں آیا ہے یاد؟ کیا؟
دشتِ جنوں کو ہم نے سنبھالا نہیں ہُوا؟
کم ظرفیوں کے دوَر میں جینا پڑا ہمیں
معیارِ ظرف کے لئے اچھّا نہیں ہُوا
ضامنؔ! مروّتیں بھی تھیں ، مجبوریاں بھی تھیں
وہ منتظر تھے، ہم سے تقاضا نہیں ہُوا
ضامن جعفری

یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا
یہ کانٹے اور تیردامن
میں اپنا دُکھ بھول گیا تھا
کتنی باتیں کی تھیں لیکن
ایک بات سے جی ڈرتا تھا
تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا
کسی پرانے وہم نے شاید
تجھ کو پھر بے چین کیا تھا
میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا
اک اُجڑے سے اسٹیشن پر
تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا
ناصر کاظمی

آسماں جتنا بڑا پینے کو دریا چاہئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 10
ہوں انا الصحرا کبھی پوچھو مجھے کیا چاہئے
آسماں جتنا بڑا پینے کو دریا چاہئے
اتنا سنجیدہ نہ ہو، سب مسخرے لگنے لگیں
زندگی کو نیم عریانی میں دیکھا چاہئے
جانتا ہوں کیوں یہ آسانی مجھے مشکل لگے
طے نہ کر پاؤں کہ کس قیمت پہ دنیا چاہئے
یہ رہا سامانِ دنیا، یہ رہے اسباب جاں
کوئی بتلاؤ مجھے ان کے عوض کیا چاہئے
کچھ نہیں تو اُس کے تسکینِ تغافل کے لئے
ایک دن اُس یارِ بے پروا سے ملنا چاہئے
یا زیاں کو سود سمجھو یا کہو سر پیٹ کر
سوچ کو حدِ مروج ہی میں رہنا چاہئے
آفتاب اقبال شمیم