منصور آفاق ۔ غزل نمبر 152
آتشِ لمس سے جلتی ہوئی چیخ
ہاتھ تصویر پہ ملتی ہوئی چیخ
زخم پاؤں میں کیے جاتی ہے
خشک پتوں سے نکلتی ہوئی چیخ
اک شکاری کے کفن سے ابھری
برف کے ساتھ پگھلتی ہوئی چیخ
کس نے چپکائی ہے دیواروں پر
خواب میں رنگ بدلتی ہوئی چیخ
میں طلسمات سے نکلا تو ملی
بابِ حیرت پہ مچلتی ہوئی چیخ
قاتلو! دھوتے رہو نقشِ قدم
چلتی جاتی ہے وہ چلتی ہوئی چیخ
اک تعلق کے گلے سے نکلی
در و دیوار نگلتی ہوئی چیخ
پھر وہی ڈوبتا سورج منصور
پھر وہی آگ اگلتی ہوئی چیخ
آخری سانس میں ڈھلتی ہوئی چیخ
گر پڑی ایک سنبھلتی ہوئی چیخ
منصور آفاق
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔