ٹیگ کے محفوظات: ملایا

اب تو اپنے در و بام بھی‘ جانتے ہیں پرایا مجھے

تونے کیا کیا نہ اے زندگی!دشت و دَر میں پھرایا مجھے
اب تو اپنے در و بام بھی‘ جانتے ہیں پرایا مجھے
اور بھی کچھ بھڑکنے لگا‘ میرے سینے کا آتش کدہ
راس تجھ بِن نہ آیا کبھی‘ سبز پیڑوں کا سایہ مجھے
ان نئی کونپلوں سے مرا‘ کیا کوئی بھی تعلق نہ تھا
شاخ سے توڑ کر اے صبا !خاک میں کیوں ملایا مجھے
درد کا دیپ جلتا رہا‘ دل کا سونا پگھلتا رہا
ایک ڈوبے ہوئے چاند نے‘ رات بھرخوں رلایامجھے
اب مرے راستے میں کہیں ‘ خوفِ صحرا بھی حائل نہیں
خشک پتّے نے آوارگی کا قرینہ سکھایا مجھے
مدّتوں رُوئے گُل کی جھلک کو ترستا رہا میں ‘ شکیبؔ
اب جو آئی بہار‘ اس نے صحنِ چمن میں نہ پایا مجھے
شکیب جلالی

گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا

دیوان اول غزل 66
دل کے تیں آتش ہجراں سے بچایا نہ گیا
گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا
دل میں رہ دل میں کہ معمار قضا سے اب تک
ایسا مطبوع مکاں کوئی بنایا نہ گیا
کبھو عاشق کا ترے جبہے سے ناخن کا خراش
خط تقدیر کے مانند مٹایا نہ گیا
کیا تنک حوصلہ تھے دیدہ و دل اپنے آہ
ایک دم راز محبت کا چھپایا نہ گیا
دل جو دیدار کا قاتل کے بہت بھوکا تھا
اس ستم کشتہ سے اک زخم بھی کھایا نہ گیا
میں تو تھا صید زبوں صید گہ عشق کے بیچ
آپ کو خاک میں بھی خوب ملایا نہ گیا
شہر دل آہ عجب جاے تھی پر اس کے گئے
ایسا اجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا
آج رکتی نہیں خامے کی زباں رکھیے معاف
حرف کا طول بھی جو مجھ سے گھٹایا نہ گیا
میر تقی میر

اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا

دیوان اول غزل 24
مارا زمیں میں گاڑا تب اس کو صبر آیا
اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا
اس گل زمیں سے اب تک اگتے ہیں سرو مائل
مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا
یکساں ہے قتل گہ اور اس کی گلی تو مجھ کو
واں خاک میں میں لوٹا یاں لوہو میں نہایا
پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو
اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا
تا چرخ نالہ پہنچا لیکن اثر نہ دیکھا
کرنے سے اب دعا کے میں ہاتھ ہی اٹھایا
تیرا ہی منھ تکے ہے کیا جانیے کہ نوخط
کیا باغ سبز تونے آئینے کو دکھایا
شادابی و لطافت ہرگز ہوئی نہ اس میں
تیری مسوں پہ گرچہ سبزے نے زہر کھایا
آخر کو مر گئے ہیں اس کی ہی جستجو میں
جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اسے نہ پایا
لگتی نہیں ہے دارو ہیں سب طبیب حیراں
اک روگ میں بساہا جی کو کہاں لگایا
کہہ ہیچ اس کے منھ کو جی میں ڈرا یہاں تو
بارے وہ شوخ اپنی خاطر میں کچھ نہ لایا
ہونا تھا مجلس آرا گر غیر کا تجھے تو
مانند شمع مجھ کو کاہے کے تیں جلایا
تھی یہ کہاں کی یاری آئینہ رو کہ تونے
دیکھا جو میر کو تو بے ہیچ منھ بنایا
میر تقی میر