ٹیگ کے محفوظات: ملاقات
حیات صَرفِ خرابات ہو گئی ہو گی
اب دُور دُور ہی سے کوئی بات ہو تو ہو
سارے مرے منصوبے تھے اک بات کی حد تک
یہی بہتر کہ اُٹھا رکھوں ملاقات پہ بات
بھَوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے
اس کنے بیٹھنے پائو تو مباہات کرو
دن گذر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے
حسن قبول کیا ہو مناجات کے تئیں
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی
ملاقات
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے ، تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے کارواں، گھِر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب، اس کے سائے
میں اپنا سب نور، رو گئے ہیں
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر اسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد پتے
گرے ہیں، اور تیرے گیسوؤں میں
الجھ کے گلنار ہو گئے ہیں
اسی کی شبنم سے خامشی کے
یہ چند قطرے، تری جبیں پر
برس کے ، ہیرے پرو گئے ہیں
۔ ۲ ۔
بہت سیہ ہے یہ رات لیکن
اسی سیاہی میں رونما ہے
وہ نہرِ خوں جو مری صدا ہے
اسی کے سائے میں نور گر ہے
وہ موجِ زر جو تری نظر ہے
وہ غم جو اس وقت تیری باہوں
کے گلستاں میں سلگ رہا ہے
(وہ غم، جو اس رات کا ثمر ہے)
کچھ اور تپ جائے اپنی آہوں
کی آنچ میں تو یہی شرر ہے
ہر اک سیہ شاخ کی کماں سے
جگر میںٹوٹے ہیں تیر جتنے
جگر سے نوچے ہیں، اور ہر اک
کا ہم نے تیشہ بنا لیا ہے
الم نصیبوں، جگر فگاروں
کی صبح، افلاک پر نہیں ہے
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں
سحر کا روشن افق یہیں ہے
یہیںپہ غم کے شرار کھل کر
شفق کا گلزار بن گئے ہیں
یہیں پہ قاتل دکھوں کے تیشے
قطار اندر قطار کرنوں
کے آتشیں ہار بن گئے ہیں
یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے
(منٹگمری جیل)
ملاقات
تم کو شہروں نے پکارا، سبزہ زاروں نے مجھے
تم کو پھولوں نے صدا دی اور خاروں نے مجھے
میں انھی پگڈندیوں پر بانسری چھیڑا کیا
بے ارادہ، جانے کس کا راستہ دیکھا کیا
جب ندی پر ترمراتا شام کی مہندی کا رنگ
میرے دل میں کانپ اٹھتی کوئی اَن بوجھی امنگ
جب کھلنڈری ہرنیوں کی ڈار بن میں ناچتی
کوئی بےنام آرزو سی میرے من میں ناچتی
ریت کے ٹیلے پہ سرکنڈوں کی لہراتی قطار
نیم شب، میں اور میری بانسری اور انتظار
آہ یہ سرسبز میداں، دم بخود، لامنتہی
جن کی وسعت میں جوانی میری آوارہ رہی
بعد مدت کے تمہارا آج اِدھر آنا ہوا
وہ زمانہ بچپنے کا، آہ، افسانہ ہوا
کتنے سلجھے بال، کیسی نرم و نازک آستیں
ہنس رہے ہو؟ اک تمہاراقہقہہ بدلا نہیں
مجھ کو دیکھو، میں ابھی وابستۂ آغاز ہوں
ان حسیں ویرانیوں میں گوش بر آواز ہوں
دوڑتی جاتی ہے دنیا وقت کے محمل کے سات
میرے حصے میں وہی بےتاب دن، بےخواب رات
ڈھونڈتا ہوں، گم ہوئی ہے میری دنیائے حسیں
ہاں، انھی پھیلے بیابانوں کے پچّھم میں کہیں!
ایک دن جب میرے مرنے کی خبر پائے گی وہ
میری تربت پر تو آئے گی، ضرور آئے گی وہ