ٹیگ کے محفوظات: مقدّر

کچھ نہیں ہے‘ مگر اس گھر کا مقدّر یادیں

دستکیں دیتی ہیں شب کو درِ دل پر یادیں
کچھ نہیں ہے‘ مگر اس گھر کا مقدّر یادیں
ڈھونڈتی ہیں تری مہکی ہوئی زلفوں کی بہار
چاندنی رات کے زینے سے اتر کر یادیں
عشرتِ رفتہ کو آواز دیا کرتی ہیں
ہر نئے لمحے کی دہلیز پہ جا کر یادیں
رنگ بھرتے ہیں خلاؤں میں ہیولے کیا کیا
پیش کرتی ہیں عجب خواب کا منظر یادیں
نہ کسی زلف کا عنبر‘ نہ گُلوں کی خوشبو
کر گئی ہیں مری سانسوں کو معطّر یادیں
کم نہیں رات کے صحرا سے‘ مرے دل کی فضا
اور آکاش کے تاروں سے فزوں تر یادیں
مشعلِ غم نہ بُجھاؤ‘ کہ شکیبؔ‘ اس کے بغیر
راستہ گھر کا بُھلا دیتی ہیں اکثر یادیں
شکیب جلالی

یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا

یا ملاقات کے امکان سے باہر ہو جا
یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا
تجھ کو معلوم نہیں ہے مری خواہش کیا ہے
مجھ پہ احسان نہ کر اور سبک سر ہو جا
ارتقا کیا تری قسمت میں نہیں لکھا ہے؟
اب تمنّا سے گزر میرا مقدّر ہو جا
بے حسی گر تری فطرت ہے تو ایسا کبھی کر
اپنے حق میں بھی کسی روز تُو پتھر ہو جا
اس سے پہلے تو غزل بھی تھی گریزاں مجھ سے
حالتِ دل تُو ذرا اور بھی ابتر ہو جا
میں جہاں پاؤں رکھوں واں سے بگولا اُٹھّے
ریگِ صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا
اے مرے حرفِ سخن تُو مجھے حیراں کر دے
تُو کسی دن مری امید سے بڑھ کر ہو جا
عرفان ستار

یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 2
یا ملاقات کے امکان سے باہر ہو جا
یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا
تجھ کو معلوم نہیں ہے مری خواہش کیا ہے
مجھ پہ احسان نہ کر اور سبک سر ہو جا
ارتقا کیا تری قسمت میں نہیں لکھا ہے؟
اب تمنّا سے گزر میرا مقدّر ہو جا
بے حسی گر تری فطرت ہے تو ایسا کبھی کر
اپنے حق میں بھی کسی روز تُو پتھر ہو جا
اس سے پہلے تو غزل بھی تھی گریزاں مجھ سے
حالتِ دل تُو ذرا اور بھی ابتر ہو جا
میں جہاں پائوں رکھوں واں سے بگولا اُٹھّے
ریگِ صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا
اے مرے حرفِ سخن تُو مجھے حیراں کر دے
تُو کسی دن مری امید سے بڑھ کر ہو جا
عرفان ستار

اس کا پیکر روشنی، میرا مقدّر روشنی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 221
جسم و جاں کی آگ سے منظر بہ منظر روشنی
اس کا پیکر روشنی، میرا مقدّر روشنی
میں نے رات اک خواب دیکھا اور روشن ہو گیا
دیکھتا کیا ہوں کہ ہے میرے برابر روشنی
اور اے روشن قبا تجھ سے ہمیں کیا چاہیے
ایک دامن بھر ہوا اور اک دیا بھر روشنی
میں کوئی جگنو نہ تارا، میں کوئی سورج نہ چاند
اور تو دیکھے تو ہے مٹی کے اندر روشنی
اکثر اکثر اس کا چہرہ دھیان میں آتا بھی ہے
جیسے گم ہوجائے جنگل میں چمک کر روشنی
میرے مولا، ہجر کی تاریک راتوں کے طفیل
زندگی بھر چاہتیں اور زندگی بھر روشنی
عرفان صدیقی

تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 29
نقشِ ظفر تھا لوحِ ازل پر لکھا ہوا
تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا
صحرا کو شاد کام کیا اُس کی موج نے
تھا سرنوشت میں جو سمندر لکھا ہوا
تابندہ ہے دلوں میں لہوُ روشنائی سے
دُنیا کے نام نامۂ سرور لکھا ہوا
مجرائیوں کے قدموں سے لپٹی ہوئی زمیں
پیشانیوں پہ بختِ سکندر لکھا ہوا
رستہ بدل کے معرکۂ صبر و جور میں
کس نے بدل دیا ہے مقدّر لکھا ہوا
پانی پہ کس کے دستِ بریدہ کی مہر ہے
کس کے لیے ہے چشمۂ کوثر لکھا ہوا
ہے خاک پر یہ کون ستارہ بدن شہید
جیسے ورق پہ حرفِ منوّر لکھا ہوا
نیزے سے ہے بلند صدائے کلامِ حق
کیا اَوج پر ہے مصحفِ اطہر لکھا ہوا
روشن ہے ایک چہرہ بیاضِ خیال پر
لو دے رہا ہے شعرِ ثناگر لکھا ہوا
سرمہ ہے جب سے خاک درِ بوترابؑ کی
آنکھوں میں ہے قبالۂ منظر لکھا ہوا
فہرستِ چاکراں میں سلاطیں کے ساتھ ساتھ
میرا بھی نام ہے سرِ دفتر لکھا ہوا
اور اس کے آگے خانۂ احوال ذات میں
ہے مدح خوانِ آلِ پیمبرؐ لکھا ہوا
سب نام دستِ ظلم تری دسترس میں ہیں
لیکن جو نام ہے مرے اندر لکھا ہوا
میں اور سیلِ گریہ خداساز بات ہے
قسمت میں تھا خزینۂ گوہر لکھا ہوا
MERGED نقشِ ظفر تھا لوح ازل پر لکھا ہوا
تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا
صحرا کو شاد کام کیا اس کی موج نے
تھا سرنوشت میں جو سمندر لکھا ہوا
تابندہ ہے دلوں میں لہو روشنائی سے
دُنیا کے نام نامۂ سرور لکھا ہوا
مجرائیوں کے قدموں سے لپٹی ہوئی زمین
پیشانیوں پہ بختِ سکندر لکھا ہوا
رستہ بدل کے معرکۂ صبر و جور میں
کس نے بدل دیا ہے مقدر لکھا ہوا
ہے خاک پر یہ کون ستارہ بدن شہید
جیسے ورق پہ حرفِ منور لکھا ہوا
نیزے سے ہے بلند صدائے کلامِ حق
کیا اوج پر ہے مصحفِ اطہر لکھا ہوا
روشن ہے ایک چہرہ بیاضِ خیال پر
لو دے رہا ہے بیتِ ثناگر لکھا ہوا
سرمہ ہے جب سے خاک درِ بوتراب کی
آنکھوں میں ہے قبالۂ منظر لکھا ہوا
اور اس کے آگے خانۂ احوالِ ذات میں
ہے مدح خوانِ آلِ پیمبر لکھا ہوا
سب نام دستِ ظلم‘ تری دسترس میں ہیں
لیکن جو نام ہے مرے اندر لکھا ہوا
میں اور سیلِ گریہ‘ خدا ساز بات ہے
قسمت میں تھا خزینۂ گوہر لکھا ہوا
عرفان صدیقی