ٹیگ کے محفوظات: مقدر

ہر کھلے در سے خوف آتا ہے

ایسے منظر سے خوف آتا ہے
ہر کھلے در سے خوف آتا ہے
جس پہ ممکن نہیں کوئی گردش
ایسے محور سے خوف آتا ہے
آئنے سے ورا، جو ہے موجود
اس کے پیکر سے خوف آتا ہے
صبح تارا ازل کا ہے جھوٹا
اس پیمبر سے خوف آتا ہے
میرے صیاد تجھ کو پنجرے کے
ایک بے پر سے خوف آتا ہے
یہ زمانہ ہے وہ دلیر جسے
مجھ سے لاغر سے خوف آتا ہے
جب ہے تقدیر پر یقیں تو پھر
کیوں مقدر سے خوف آتا ہے
خوف کی انتہا ہے یہ یاؔور
اپنے اندر سے خوف آتا ہے
یاور ماجد

ہم مگر ترسے، ۔۔۔ اور ہم تر سے

گو کہ بادل تو ٹوٹ کر بر سے
ہم مگر ترسے، ۔۔۔ اور ہم تر سے
ہم غریبوں کی کون تیاری؟
وا کیا در، نکل پڑے گھر سے
کچھ تحرک تو ہو فضاؤں میں
ہو صبا سے بھلے، ہو صَرصَر سے
ہم لڑھکتے چلے گئے پھر تو
کھائی ٹھوکر جو ایک پتھر سے
کیسے کیسے پہاڑ کاٹ دیے
اور وہ بھی اس ایک پیکر سے
ایک سورج فلک پہ ہوتا تھا
کیوں حذف ہو گیا وہ منظر سے
اپنا تقدیر پر یقیں ہی نہیں
پھر گلہ کیا کریں مقدر سے
اپنے مرکز کو ڈھونڈنے کے لیے
چھن گئے دائرے ہی محور سے
طے کیا تھا سفر جو ماجدؔ نے
کیا کبھی ہو سکے گا یاؔور سے
یاور ماجد
 

ہے گلہ اپنے حالِ ابتر کا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 12
محو ہوں میں جو اس ستمگر کا
ہے گلہ اپنے حالِ ابتر کا
حال لکھتا ہوں جانِ مضطر کا
رگِ بسمل ہے تار مسطر کا
آنکھ پھرنے سے تیری، مجھ کو ہوا
گردشِ دہر دور ساغر کا
شعلہ رو یار، شعلہ رنگ شراب
کام یاں کیا ہے دامنِ تر کا
شوق کو آج بے قراری ہے
اور وعدہ ہے روزِ محشر کا
نقشِ تسخیرِ غیر کو اس نے
خوں لیا تو مرے کبوتر کا
میری ناکامی سے فلک کو حصول؟
کام ہے یہ اُسی ستم گر کا
اُس نے عاشق لکھا عدو کو لقب
ہائے لکھا مرے مقدر کا
آپ سے لحظہ لحظہ جاتے ہو
شیفتہ ہے خیال کس گھر کا
مصطفٰی خان شیفتہ

سودا بھی وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 134
طفلانِ کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں
سودا بھی وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں
میں اور خود سے تجھ کو چھپاؤں گا ، یعنی میں
لے دیکھ لے میاں میرے اندر بھی کچھ نہیں
بس اک غبارِ غم ہے ایک کوچہ گرد کا
دیوارِ بود کچھ نہیں اور گھر بھی کچھ نہیں
یہ شہرِ دارِ محتسب و مولوی ہی کیا
پیرِمغاں و رند و قلندر بھی کچھ نہیں
شیخِ حرم لقمہ کی پروا ہے کیوں نہیں
مسجد بھی اس کی کچھ نہیں ممبر بھی کچھ نہیں
مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دِیار میں
شاید وہ جبر ہے کے مقدر بھی کچھ نہیں
جانی میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں فدا
یہ اور بات ہے تیرا پیکر بھی کچھ نہیں
یہ شب کا رقص و رنگ تو کیا سن میرے کوہان
صبح شتاب کوش کا دفتر بھی کچھ نہیں
بس اک غبارِ طور گماں کا بھی تہ با تہ
یعنی نظر بھی کچھ نہیں ، منظر بھی کچھ نہیں
ہے اب تو اک حالِ سکونِ ہمیشیگی
پرواز کا تو ذکر ہی کیا ، پر بھی کچھ نہیں
پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص
یعنی وفاِ عہد کا بستر بھی کچھ نہیں
گزرے گی جون شہر میں رشتوں کے کس طرح
دل میں بھی کچھ نہیں ہے اور زباں پر بھی کچھ نہیں
جون ایلیا

کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا

دیوان اول غزل 107
دل جو زیرغبار اکثر تھا
کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن
رات دن ہم تھے اور بستر تھا
سرسری تم جہان سے گذرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم
یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا
بعد یک عمر جو ہوا معلوم
دل اس آئینہ رو کا پتھر تھا
بارے سجدہ ادا کیا تہ تیغ
کب سے یہ بوجھ میرے سر پر تھا
کیوں نہ ابر سیہ سفید ہوا
جب تلک عہد دیدئہ تر تھا
اب خرابہ ہوا جہان آباد
ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا
بے زری کا نہ کر گلہ غافل
رہ تسلی کہ یوں مقدر تھا
اتنے منعم جہان میں گذرے
وقت رحلت کے کس کنے زر تھا
صاحب جاہ و شوکت و اقبال
اک ازاں جملہ اب سکندر تھا
تھی یہ سب کائنات زیر نگیں
ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا
لعل و یاقوت ہم زر و گوہر
چاہیے جس قدر میسر تھا
آخر کار جب جہاں سے گیا
ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا
عیب طول کلام مت کریو
کیا کروں میں سخن سے خوگر تھا
خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا
میر تقی میر

دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 29
حدوں میں رہ کر، حدوں سے باہر، بہے سمندر
دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر
زمیں کی آغوشِ پُرسکوں میں سکوں نہ پائے
ہوا کی راہوں میں ابر بن کر، بہے سمندر
یہ جان و جُنبش ثمر ہیں پانی کی ٹہنیوں کے
بدل کے شکلِ نوید گھر گھر، بہے سمندر
یہ سب کے سب ہیں پڑاؤ اسکی روانیوں کے
پہاڑ یا برف یا صنوبر، بہے سمندر
ہری کویتا کے شبد مٹی پہ لکھتا جائے
زبانِ اسرار کا سخن ور، بہے سمندر
یہ وجہ فعلِ وجود اصل وجود بھی ہے
یہی ہے دریا یہی شناور، بہے سمندر
اسی حوالے سے آنکھ پر منکشف ہوئے ہیں
زمین، افلاک اور خاور، بہے سمندر
رُکے تو ایسے بسیط و ساکت، ہو موت جیسے
بنامِ ہستی بہے برابر، بہے سمندر
فنا کرے تو بقا کی گنجائشیں بھی رکھے
ہو جیسے انسان کا مقدر، بہے سمندر
آفتاب اقبال شمیم

نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 20
ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا
نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا
کچھ روشنیِٔ طبع ضروری ہے وگرنہ
ہاتھوں میں اُتر آتا ہے یہ سر کا اندھیرا
وُہ حکم کہ ہے عقل و عقیدہ پہ مقدّم
چھٹنے ہی نہیں دیتا مقدر کا اندھیرا
کیا کیا نہ ابوالہول تراشے گئے اس سے
جیسے یہ اندھیرا بھی ہو پتھر کا اندھیرا
دیتی ہے یہی وقت کی توریت گواہی
زر کا جو اجالا ہے وُہ ہے زر کا اندھیرا
ہر آنکھ لگی ہے اُفق دار کی جانب
سورج سے کرن مانگتا ہے ڈر کا اندھیرا
آفتاب اقبال شمیم

منسوب ہے مجھی سے مقدر زمین کا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 15
ہوں دیکھنے میں عام سا مظہر زمین کا
منسوب ہے مجھی سے مقدر زمین کا
زنجیر سی پڑی ہے دلو ں کے کواڑ پر
یہ سرحدیں ہٹا کر کھلے در زمین کا
بدلے لہو کے رنگ سے، وہ بھی ذرا سی دیر
رہتا ہے ورنہ ایک سا منظر زمین کا
مجھ کو مرے شعور کی برکت سے مل گیا
اس شہرَ کائنات میں یہ گھر زمین کا
سو جائیں فکرِ شعر میں بے فکریوں کے ساتھ
چادر ہو آسمان کی بستر زمین کا
جیتا ہوں خود کو بیچ کے بازارِ نثر میں
میں رہنے والا شاعری کی سرزمین کا
آفتاب اقبال شمیم

تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 29
نقشِ ظفر تھا لوحِ ازل پر لکھا ہوا
تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا
صحرا کو شاد کام کیا اُس کی موج نے
تھا سرنوشت میں جو سمندر لکھا ہوا
تابندہ ہے دلوں میں لہوُ روشنائی سے
دُنیا کے نام نامۂ سرور لکھا ہوا
مجرائیوں کے قدموں سے لپٹی ہوئی زمیں
پیشانیوں پہ بختِ سکندر لکھا ہوا
رستہ بدل کے معرکۂ صبر و جور میں
کس نے بدل دیا ہے مقدّر لکھا ہوا
پانی پہ کس کے دستِ بریدہ کی مہر ہے
کس کے لیے ہے چشمۂ کوثر لکھا ہوا
ہے خاک پر یہ کون ستارہ بدن شہید
جیسے ورق پہ حرفِ منوّر لکھا ہوا
نیزے سے ہے بلند صدائے کلامِ حق
کیا اَوج پر ہے مصحفِ اطہر لکھا ہوا
روشن ہے ایک چہرہ بیاضِ خیال پر
لو دے رہا ہے شعرِ ثناگر لکھا ہوا
سرمہ ہے جب سے خاک درِ بوترابؑ کی
آنکھوں میں ہے قبالۂ منظر لکھا ہوا
فہرستِ چاکراں میں سلاطیں کے ساتھ ساتھ
میرا بھی نام ہے سرِ دفتر لکھا ہوا
اور اس کے آگے خانۂ احوال ذات میں
ہے مدح خوانِ آلِ پیمبرؐ لکھا ہوا
سب نام دستِ ظلم تری دسترس میں ہیں
لیکن جو نام ہے مرے اندر لکھا ہوا
میں اور سیلِ گریہ خداساز بات ہے
قسمت میں تھا خزینۂ گوہر لکھا ہوا
MERGED نقشِ ظفر تھا لوح ازل پر لکھا ہوا
تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا
صحرا کو شاد کام کیا اس کی موج نے
تھا سرنوشت میں جو سمندر لکھا ہوا
تابندہ ہے دلوں میں لہو روشنائی سے
دُنیا کے نام نامۂ سرور لکھا ہوا
مجرائیوں کے قدموں سے لپٹی ہوئی زمین
پیشانیوں پہ بختِ سکندر لکھا ہوا
رستہ بدل کے معرکۂ صبر و جور میں
کس نے بدل دیا ہے مقدر لکھا ہوا
ہے خاک پر یہ کون ستارہ بدن شہید
جیسے ورق پہ حرفِ منور لکھا ہوا
نیزے سے ہے بلند صدائے کلامِ حق
کیا اوج پر ہے مصحفِ اطہر لکھا ہوا
روشن ہے ایک چہرہ بیاضِ خیال پر
لو دے رہا ہے بیتِ ثناگر لکھا ہوا
سرمہ ہے جب سے خاک درِ بوتراب کی
آنکھوں میں ہے قبالۂ منظر لکھا ہوا
اور اس کے آگے خانۂ احوالِ ذات میں
ہے مدح خوانِ آلِ پیمبر لکھا ہوا
سب نام دستِ ظلم‘ تری دسترس میں ہیں
لیکن جو نام ہے مرے اندر لکھا ہوا
میں اور سیلِ گریہ‘ خدا ساز بات ہے
قسمت میں تھا خزینۂ گوہر لکھا ہوا
عرفان صدیقی

آنکھیں کسی جلتے ہوئے منظر کی طرح ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 365
پلکیں کسی برہن کے کھلے سر کی طرح ہیں
آنکھیں کسی جلتے ہوئے منظر کی طرح ہیں
گرتے ہیں ہمی میں کئی بپھرے ہوئے دریا
ہم وقت ہیں ، لمحوں کے سمندر کی طرح ہیں
بس ٹوٹتے پتوں کی صدائیں ہیں ہوا میں
موسم بھی مرادوں کے مقدر کی طرح ہیں
رکھتے ہیں اک اک چونچ میں کنکر کئی دکھ کے
اب حرف ابابیلوں کے لشکر کی طرح ہیں
بکتے ہوئے سو بار ہمیں سوچنا ہو گا
اب ہم بھی کسی آخری زیور کی طرح ہیں
یہ خواب جنہیں اوڑھ کے سونا تھا نگر کو
فٹ پاتھ پہ بچھتے ہوئے بستر کی طرح ہیں
ناراض نہ ہو اپنے بہک جانے پہ جاناں
ہم لوگ بھی انسان ہیں ، اکثر کی طرح ہیں
اب اپنا بھروسہ نہیں ، ہم ساحلِ جاں پر
طوفان میں ٹوٹے ہوئے لنگر کی طرح ہیں
تم صرفِ نظر کیسے، کہاں ہم سے کرو گے
وہ لوگ ہیں ہم جو تمہیں ازبر کی طرح ہیں
منصور ہمیں بھولنا ممکن ہی نہیں ہے
ہم زخم میں اترے ہوئے خنجر کی طرح ہیں
منصور آفاق

ہم ریس کے گھوڑے ہیں ، مقدر کی طرح ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 362
جیتے ہوئے لوگوں کے سوئمبر کی طرح ہیں
ہم ریس کے گھوڑے ہیں ، مقدر کی طرح ہیں
ہر لمحہ پیانو سے نئی شکل ابھاریں
یہ انگلیاں اپنی، کسی بت گر کی طرح ہیں
کیا چھاؤں کی امید لیے آئے گا کوئی
ہم دشت میں سوکھے ہوئے کیکر کی طرح ہیں
الحمدِ مسلسل کا تسلسل ہے ہمی سے
ہم صبحِ ازل زاد کے تیتر کی طرح ہیں
جلتے ہوئے موسم میں ہیں یخ بستہ ہوا سے
ہم برف بھری رات میں ہیٹر کی طرح ہیں
حیرت بھری نظروں کے لیے جیسے تماشا
ہم گاؤں میں آئے ہوئے تھیٹر کی طرح ہیں
یہ بینچ بھی ہے زانوئے دلدار کی مانند
یہ پارک بھی اپنے لیے دلبر کی طرح ہیں
پیاسوں سے کہو آئیں وہ سیرابیِ جاں کو
ہم دودھ کی بہتی ہوئی گاگر کی طرح ہیں
منصور ہمیں چھیڑ نہ ہم شیخِ فلک کے
مسجد میں لگائے ہوئے دفتر کی طرح ہیں
منصور آفاق

یہ برگزیدہ لوگ بھی پتھر پرست ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 361
قرباں جواہرات پہ ہیں ، زر پرست ہیں
یہ برگزیدہ لوگ بھی پتھر پرست ہیں
کچھ ہیں اسیرِ عشوہِحسنِ سفید فام
باقی جو اہلِ زرہیں وہ ڈالر پرست ہیں
تجھ سے معاملہ نہیں اپنا، ہوائے شام
پانی ہیں ہم ، ازل سے سمندر پرست ہیں
ہم دوپہر میں مانتے سورج کو ہیں خدا
صحرا کی سرد رات میں اختر پرست ہیں
الٹا ئیں جن کا نام تو لکھیں وہاب ہم
تنظیمِ اسم ذات کے وہ سرپرست ہیں
منصور جبر و قدر کی ممکن نہیں ہے بحث
ہم بولتے نہیں ہیں ، مقدر پرست ہیں
منصور آفاق

گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 111
ہاتھ سے ہنگامِ محشر رکھ دیا
گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا
اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے
بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا
پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں
آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا
اور پھر تازہ ہوا کے واسطے
ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا
ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر
پاؤں میں اس کے مقدر رکھ دیا
دیکھ کر افسوس تارے کی چمک
اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا
ایک ہی آواز پہنی کان میں
ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا
نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر
خواب کو بستر سے باہر رکھ دیا
دیدئہ تر میں سمندر دیکھ کر
اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا
اور پھر جاہ و حشم رکھتے ہوئے
میں نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا
میری مٹی کا دیا تھا سو اسے
میں نے سورج کے برابر رکھ دیا
خانہء دل کو اٹھا کر وقت نے
بے سرو ساماں ، سڑک پر رکھ دیا
جو پہن کرآتی ہے زخموں کے پھول
نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا
کچھ کہا منصور اس نے اور پھر
میز پر لا کر دسمبر رکھ دیا
منصور آفاق

ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 61
اِس جا نمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا
ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا
دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف
اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا
آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی
اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا
اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب
تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا
ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو
دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا
گربہ صفت گلی میں کسی گھونسلے کے بیچ
میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا
ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول
لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا
پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے
کمرے میں ہے میڈونا کا بستر بنا ہوا
یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف
اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا
ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع
تھا انگ انگ کورٹ کا محشر بنا ہوا
منصور آفاق