ٹیگ کے محفوظات: مقابلہ

کرے ہے آپھی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں

دیوان سوم غزل 1182
کبھو ملے ہے سو وہ یوں کہ پھر ملا نہ کریں
کرے ہے آپھی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں
ہوئی یہ چاہ میں مشکل کہ جی گیا ہوتا
نہ رہتے جیتے اگر ہم مساہلہ نہ کریں
ہمارے حرف پریشاں ہی لطف رکھتے ہیں
جنوں ہے بحث جو وحشت میں عاقلانہ کریں
صفاے دل جو ہوئی ٹک تو دیکھیں ہیں کیا کیا
ہم ایسے آئینے کو اپنے کیوں جلا نہ کریں
وبال میں نہ گرفتار ہوں کہیں مہ و مہر
خدا کرے ترے رخ سے مقابلہ نہ کریں
دل اب تو ہم سے ہے بدباز اگر رہے جیتے
کسو سے ہم بھی ولے پھر معاملہ نہ کریں
سخن کے ملک کا میں مستقل امیر ہوں میر
ہزار مدعی بھی مجھ کو دہ دلا نہ کریں
میر تقی میر

اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 15
رُکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا
اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا
اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو
کنارِ آپ ہے پہرا لگا ہوا کیسا
ابھی سیاہ، ابھی سیم گوں، ابھی خوُنبار
اُفق اُفق ہے یہ منظر گریز پا کیسا
اذان ہے کہ علم کیا بلند ہوتا ہے
یہ جل رہا ہے ہوا میں چراغ سا کیسا
یہ لوگ دشت جفا میں کسے پُکارتے ہیں
یہ بازگشت سناتی ہے مرثیہ کیسا
گلوئے خشک میں سوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر
خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا
وہ مہربان اجازت تو دے رہا ہے مگر
یہ جاں نثار ہیں مقتل سے لوٹنا کیسا
یہ ایک صف بھی نہیں ہے، وہ ایک لشکر ہے
یہاں تو معرکہ ہو گا، مقابلہ کیسا
سلگتی ریت میں جو شاخ شاخ دفن ہوا
رفاقتوں کا شجر تھا ہرا بھرا کیسا
یہ سرُخ بوُند سی کیا گھل رہی ہے پانی میں
یہ سبز عکس ہے آنکھوں میں پھیلتا کیسا
کھڑا ہے کون اکیلا حصارِ غربت میں
گھرا ہوا ہے اندھیروں میں آئنہ کیسا
یہ ریگِ زرد ردا ہے برہنہ سر کے لیے
اُجاڑ دشت میں چادر کا آسرا کیسا
سیاہ نیزوں پہ سورج اُبھرتے جاتے ہیں
سوادِ شام ہے منظر طلوع کا کیسا
تجھے بھی یاد ہے اے آسماں کہ پچھلے برس
مری زمین پہ گزرا ہے سانحہ کیسا
عرفان صدیقی

ذرا سی بات میں ہوتا ہے فیصلہ دل کا

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 6
اُٹھو گلے سے لگا لو، مٹے گلہ دل کا
ذرا سی بات میں ہوتا ہے فیصلہ دل کا
دم آ کے آنکھوں میں اٹکے تو کچھ نہیں کھٹکا
اٹک نہ جائے الٰہی معاملہ دل کا
تمہارے غمزوں نے کھوئے ہیں ہوش و صبر و قرار
انہیں لٹیروں نے لوٹا ہے قافلہ دل کا
خدا ہی ہے جو کڑی چتونوں سے جان بچے
ہے آج دل شکنوں سے مقابلہ دل کا
امیر بھُول بھُلیاں ہے کوچۂ گیسو
تباہ کیوں نہ پھرے اس میں قافلہ دل کا
امیر مینائی