ٹیگ کے محفوظات: معطر

وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 27
قبر سے اٹھ کے یہی دھیان مکرر آیا
وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا
وعدہ کس شخص کا اور وہ بھی نہایت کچا
ہم بھی کیا خوب ہیں، سچ مچ ہمیں باور آیا
مجھ سے وہ صلح کو اس شان سے آئے گویا
جنگ کے واسطے دارا سے سکندر آیا
جذبۂ شوق کی تاثیر اسے کہتے ہیں
سن کے قاصد کی خبر آپ وہ در پر آیا
خاک ہونے کا مرے ذکر نہ آیا ہو کہیں
آج اس بزم سے کچھ غیر مکدر آیا
اڑ گئے ہوش کہ پیغامِ اجل ہے یہ جواب
کوچۂ یار سے زخمی جو کبوتر آیا
دلِ صد چاک میں ہے کاکلِ مشکیں کا خیال
کہ مجھے گریہ جو آیا تو معطر آیا
اے اجل نیم نگہ کی تو مجھے مہلت دے
اہلِ ماتم میں یہ چرچا ہے کہ دلبر آیا
اپنی محفل سے یہ آزردہ اٹھایا مجھ کو
کہ منانے کے لئے آپ مرے گھر آیا
یہ دیا ہائے مجھے لذتِ آزار نے چین
دل ہوا رنج سے خالی بھی تو جی بھر آیا
آپ مرتے تو ہیں پر جیتے ہی بن آئے گی
شیفتہ ضد پہ جو اپنی وہ ستم گر آیا
مصطفٰی خان شیفتہ

دل نہ اپنا ہے محبت میں نہ دلبر اپنا

دیوان سوم غزل 1094
کیا کہے حال کہیں دل زدہ جاکر اپنا
دل نہ اپنا ہے محبت میں نہ دلبر اپنا
دوری یار میں ہے حال دل ابتر اپنا
ہم کو سو کوس سے آتا ہے نظر گھر اپنا
یک گھڑی صاف نہیں ہم سے ہوا یار کبھی
دل بھی جوں شیشۂ ساعت ہے مکدر اپنا
ہر طرف آئینہ داری میں ہے اس کے رو کی
شوق سے دیکھیے منھ ہووے ہے کیدھر اپنا
لب پہ لب رکھ کے نہ اس گل کے کبھو ہم سوئے
یہ بساط خسک و خار ہے بستر اپنا
کس طرح حرف ہو ناصح کا موثر ہم میں
سختیاں کھینچتے ہی دل ہوا پتھر اپنا
کیسی رسوائی ہوئی عشق میں کیا نقل کریں
شہر و قصبات میں مذکور ہے گھر گھر اپنا
اس گل تر کی قبا کے کہیں کھولے تھے بند
رنگوں گل برگ کے ناخن ہے معطر اپنا
تجھ سے بے مہر کے لگ لگنے نہ دیتے ہرگز
زور چلتا کچھ اگر چاہ میں دل پر اپنا
پیش کچھ آئو یہیں ہم تو ہیں ہر صورت سے
مثل آئینہ نہیں چھوڑتے ہم گھر اپنا
دل بہت کھینچتی ہے یار کے کوچے کی زمیں
لوہو اس خاک پہ گرنا ہے مقرر اپنا
میر خط بھیجے پر اب رنگ اڑا جاتا ہے
کہ کہاں بیٹھے کدھر جاوے کبوتر اپنا
میر تقی میر