ٹیگ کے محفوظات: مصیبت

کچھ بھی نہیں بگڑا ابھی، عزت سے نکل جا

اچھا ہے اگر شہرِ رقابت سے نکل جا
کچھ بھی نہیں بگڑا ابھی، عزت سے نکل جا
لمحات کئی اور گزرنے کو ہیں بے تاب
ٹھہری ہوئی اس درد کی ساعت سے نکل جا
تُو عشق ہے بےخوف گزر شہرِ جنوں سے
اس مسئلہءِ اذن و اجازت سے نکل جا
ہے عقل کا کہنا کہ کسی طور نبھا لے
دل کہتا ہے بے فیض رفاقت سے نکل جا
جو رنج ترا ہے ہی نہیں اُس سے حذر کر
دنیا کا کہا مان، مصیبت سے نکل جا
ممکن ہے دوبارہ نہ وہ پوچھے تری مرضی
موقع ہے تو اس بابِ رعایت سے نکل جا
اے وارثِ خوشبوئے سخن زارِ حقیقت
اس رزم گہِ قامت و شہرت سے نکل جا
عرفان ستار

حال تھا جو حضرتِ آدم کا جنت کے بغیر

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 46
اب وہ عالم ہے مرا اس بزمِ عشرت کے بغیر
حال تھا جو حضرتِ آدم کا جنت کے بغیر
اصل کی امید ہے بے کار فرقت کے بغیر
آدم راحت نہیں پاتا مصیبت کے بغیر
مجھ کو شکوہ ہے ستم کا تم کو انکارِ ستم
فیصلہ یہ ہو نہیں سکتا قیامت کے بغیر
دے دعا مجھ کو کہ تیرا نام دنیا بھر میں ہے
حسن کی شہرت نہیں ہوتی محبت کے بغیر
حضرتِ ناصح بجا ارشاد، گستاخی معاف
آپ سمجھاتے تو ہیں لیکن محبت کے بغیر
یہ سمجھ کر دل میں رکھا ہے تمھارے تیر کو
کوئی شے قائم نہیں رہتی حفاظت کے بغیر
راستے میں وہ اگر مل بھی گئے تقدیر سے
ل دیے منہ پھیر کر صاحب سلامت کے بغیر
سن رہا ہوں طعنہ اخیار لیکن کیا کروں
میں تری محفل میں آیا ہوں اجازت کے بغیر
دل ہی پر موقوف کیا او نا شناسِ دردِ دل!
کوئی بھی تڑپا نہیں کرتا اذیت کے بغیر
قمر جلالوی

میری وحشت تری شہرت ہی سہی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 203
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
عمر ہر چند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
مرزا اسد اللہ خان غالب

رنج و محنت کمال راحت ہے

دیوان اول غزل 583
نالۂ عجز نقص الفت ہے
رنج و محنت کمال راحت ہے
عشق ہی گریۂ ندامت ہے
ورنہ عاشق کو چشم خفت ہے
تا دم مرگ غم خوشی کا نہیں
دل آزردہ گر سلامت ہے
دل میں ناسور پھر جدھر چاہے
ہر طرف کوچۂ جراحت ہے
رونا آتا ہے دم بدم شاید
کسو حسرت کی دل سے رخصت ہے
فتنے رہتے ہیں اس کے سائے میں
قد و قامت ترا قیامت ہے
نہ تجھے رحم نے اسے ٹک صبر
دل پہ میرے عجب مصیبت ہے
تو تو نادان ہے نپٹ ناصح
کب موثر تری نصیحت ہے
دل پہ جب میرے آ کے یہ ٹھہرا
کہ مجھے خوش دلی اذیت ہے
رنج و محنت سے باز کیونکے رہوں
وقت جاتا رہے تو حسرت ہے
کیا ہے پھر کوئی دم کو کیا جانو
دم غنیمت میاں جو فرصت ہے
تیرا شکوہ مجھے نہ میرا تجھے
چاہیے یوں جو فی الحقیقت ہے
تجھ کو مسجد ہے مجھ کو میخانہ
واعظا اپنی اپنی قسمت ہے
ایسے ہنس مکھ کو شمع سے تشبیہ
شمع مجلس کی رونی صورت ہے
باطل السحر دیکھ باطل تھے
تیری آنکھوں کا سحر آفت ہے
ابرتر کے حضور پھوٹ بہا
دیدئہ تر کو میرے رحمت ہے
گاہ نالاں طپاں گہے بے دم
دل کی میرے عجب ہی حالت ہے
کیا ہوا گر غزل قصیدہ ہوئی
عاقبت قصۂ محبت ہے
تربت میر پر ہیں اہل سخن
ہر طرف حرف ہے حکایت ہے
تو بھی تقریب فاتحہ سے چل
بخدا واجب الزیارت ہے
میر تقی میر

پھر وہی قوسِ قزح جیسی مصیبت ہو گی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 469
دستکیں کہتی ہیں پھر وہی قیامت ہو گی
پھر وہی قوسِ قزح جیسی مصیبت ہو گی
اگلا پھر بے بسی کا ہو گا وزیرِ اعظم
اگلی پھر بے کسی کی کوئی حکومت ہو گی
پھر غلط بول پڑے اپنے ذرائع ابلاغ
میڈیا والوں کی پھر ایک ضیافت ہو گی
پھر ہمیں فول بنائیں گے ہمارے ہیرو
پھر نیا قصہ ء غم پھرنئی آفت ہو گی
ریٹ ڈالر کا بڑھا دیں گے فرشتے منصور
پھر کسی کوٹھی پہ اللہ کی رحمت ہو گی
منصور آفاق

نیندوں کی بستیوں پہ مصیبت بنی ہوئی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 446
اس کی حرافہ یاد ہے آفت بنی ہوئی
نیندوں کی بستیوں پہ مصیبت بنی ہوئی
جلتی جہاں تھی آگ وہاں دیکھ تو سہی
اڑتی ہے راکھ، نوحۂ عبرت بنی ہوئی
وہ جمع لوگ ہیں کسی پاگل کے آس پاس
کوئی ہے انقلاب کی صورت بنی ہوئی
لگتا ہے تم ملاؤ گی اس کو بھی خاک میں
تھوڑی سی جو ہے شہر میں عزت بنی ہوئی
وہ اپنی خواہشوں کی ہے تکمیل کا چلن
جو چیز ہے جہاں میں محبت بنی ہوئی
ہر رات نظمِ تازہ اترتی ہے صحن میں
کیاہے جدائی باعثِ برکت بنی ہوئی
منصور رکھ د یا ہے اٹھا کرسٹور میں
پھرتی تھی وہ جو میری ضرورت بنی ہوئی
منصور آفاق