دیوان سوم غزل 1112
عجب نہیں ہے نہ جانے جو میر چاہ کی ریت
سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت
مت ان نمازیوں کو خانہ ساز دیں جانو
کہ ایک اینٹ کی خاطر یہ ڈھاتے ہیں گے مسیت
غم زمانہ سے فارغ ہیں مایہ باختگاں
قمارخانۂ آفاق میں ہے ہار ہی جیت
ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے
ہمارے عندیے میں تو ہے وہ خبیث پلیت
کسو کے بستر و سنجاب و قصر سے کیا کام
ہماری گور کے بھی ڈھیر میں مکاں ہے مبیت
ہوئے ہیں سوکھ کے عاشق طنبورے کے سے تار
رقیب دیکھو تو گاتے ہیں بیٹھے اور ہی گیت
شفق سے ہیں در و دیوار زرد شام و سحر
ہوا ہے لکھنؤ اس رہگذر میں پیلی بھیت
کہا تھا ہم نے بہت بولنا نہیں ہے خوب
ہمارے یار کو سو اب ہمیں سے بات نہ چیت
ملے تھے میر سے ہم کل کنار دریا پر
فتیلہ مو وہ جگر سوختہ ہے جیسے اتیت
میر تقی میر